انتہاںُی سادہ لیکن باطل کے ایوانوں کو لرزا دینےوالی سیاست کے امین11دسمبرقائد ملت اسلامیہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ کایوم وصال ہےان کے وصال پر ایک اخبار نے سرخی جمائی کہ۔’’محد سے لے کر لحد تک کردار ہی کردار‘‘مجیب الرحمٰن شامی کے کالم سے اقتباساتمولانا 1973ء کے دستورکی تدوین کے موقع پر دستوری کمیٹی کے رکن بنائے گئے اوراس حیثیت سے ملک کے اس متفقہ دستورکی تشکیل میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دستور کو اسلامی بنانے کے لئے مولانا نے دو سو ترامیم پیش کیںپیپلز پارٹی نے آئین ساز کمیٹی میں آئین کا جو مسودہ پیش کیا اس میں پاکستان کانام سوشلسٹ ڈیمو کریٹک ری پبلک پاکستان تجویز کیا گیا تھا۔ حزب اختلاف کی طرف سے حضرت قائد اہلسنّت نے اس کو مسترد کردیا اور پاکستان کا نام اسلامک ری پبلک ڈیموکریٹک پاکستان تجویزکیا مگر اپوزیشن کی بات آئین ساز کمیٹی نے تسلیم نہ کی۔ مسودہ اسمبلی میں پیش کردیاگیا۔ پیپلز پارٹی کو اسمبلی میں 2/3 اکثریت حاصل تھی۔ لیکن امام نورانی نے اسمبلی میں تاریخی تقریر فرماتے ہوئے کہا کہ۔’’یہ آئین جو خوبصورت فریم میں سجاکر ہمارے سامنے پیش کردیاگیا ہے اس کو کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے‘ سوشلزم نہیں ہے۔ ہم اس آئین کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔ اگریہ آئین منظورکرلیا گیا تو ہم اس کو پھاڑ کر اسمبلی کے باہر چلے جائیں گے اور اس کے خلاف بھرپور جدوجہدکریں گے‘‘۔آپ کے اس تقریر کے بعد اسمبلی کے حالات بدل گئے اور بالآخر حکومت کو اپنی اکثریت کے باوجود اپنا آئین تبدیل کرنا پڑا اور امام نورانی کا دیا ہوا آئین منظور ہوا۔ آج 1977ء کا آئین ہماری بقا‘ سلامتی اور ترقی و خوشحالی کا ضامن ہے۔ اس کی منظوری میں قائد اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی کردار ہے۔مولانا شاہ احمد نورانی جمہوری اقدار کی سربلندی کے لئے ذوالفقار علی بھٹوکی بلامقابلہ وزیر اعظم بننے کی خواہش کے راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے حزب اختلاف کے فیصلے کے مطابق بھٹو کے مقابلے میں وزارت اعظمیٰ کا الیکشن لڑا۔ اگرچہ انہیں صرف 32 ووٹ ملے مگر ان کی جرات و بہادری کیملک بھر میں داد دی گئی کہ انہوں نے اس وقت بھٹو کا مقابلہ کیا۔ جب کوئی دوسرا اس کے لئے تیار نہ تھا۔جس وقت کراچی میں ورلڈ اسلامک مشن کا دفتر کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کے مقابل یونی ٹاورمیں تھا۔ اس وقت اتفاق سے میں بھی کراچی گیا ہوا تھا۔ حضرت دفتر تشریف لائے تو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ لائن پر ایم کیو ایم کے الطاف حسین تھے۔ انہوں نے ملاقات کی درخواست کی‘ آپ نے اجازت دی کہ تشریف لے آئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد الطاف حسین بھاری بھر کم وفدکے ساتھ ورلڈ اسلامک مشن کے دفتر میں وارد ہوگئے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد الطاف حسین نے پیش کش کی کہ ایم کیو ایم جمعیت علماء پاکستان کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی کی بارہ سیٹوں کے مقابلہ میں کوئی امیدوارکھڑا نہیں کرے گی۔ آپ صرف اتنی مہربانی فرمائیں کہ ایم کیو ایم کی مخالفت نہ کریں۔ یہ ایک سیاستدان کے لئے بہت بڑی آفر ہے لیکن حضرت نے فوری جواب ارشاد فرمایا کہ الطاف بھائی آپ کی تشریف آوری کا شکریہ۔ آپ کی پیش کش کا بھی شکریہ مگر جمعیت علماء پاکستان کا کسی علاقائی یا لسانی پروگرام پر مشتمل سیاسی پروگرام نہیں ہے۔ اس کا پیغام صرف اور صرف نظام مصطفےٰ ہے۔ ہم تمام کی تمام سیٹیں بلا مقابلہ آپ کو دیتے ہیں آپ صرف اردو قومیت کی بجائے اسلامی قومیت کو اپنا منشور بنائیں۔ کیونکہ جمعیت کے نزدیک اردوکی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے۔ افغانستان‘ ایران اور دوسرے ممالک میں جو مسلمان زبانیں بولتے ہیں وہ بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی اردو ہے۔ اردو کی بنا پر کوئی بھائی بھائی نہیں بن سکتا۔ دیکھیے نہرو بھی اردو بولتا تھا میں ا ور آپ بھی اردو بولتے ہیں۔ توکیا نہرو ہمارا بھائی بن سکتا ہے؟ قومیت صرف اسلام پرہوتی ہے۔ آپ کا پروگرام چونکہ اس سے مختلف ہے‘ آپ اس میں تبدیلی کردیں ہم غیر مشروط آپ سے تعاون کریں گے۔ جواب میں الطاف حسین نے اردو قومیت چھوڑنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم جماعت اسلامی کو شکست دیناچاہتے ہیں۔ چونکہ اس زمانہ میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کے اختلافات بہت شدید تھے۔ الطاف حسین نے نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے جماعت اسلامی سے مقابلے کی بات کی۔ جواب میں قائداہلسنّت نے فر مایا کہ پہلے ہم قومیت کافیصلہ کرلیں اس کے بعد ہم جماعت اسلامی کے بارے میں فیصلہ کرلیں گے مگر الطاف حسین نے یہ تسلیم نہ کیا تو حضرت نے بھی صاف صاف فرما دیا کہ الطاف بھائی نتیجہ ہمیں معلوم ہے اس کے باوجود آپ کی لسانی قومیت کا مقابلہ کیا جائے گا اور آپ سے مصالحت نہیں کی جاسکتی۔ حضرت کی یہ جرأت ان کی ایمانی قوت اورسیاسی خصوصیت ہے۔امام نورانی کی یہ خصوصیت سب سے نمایاں ہے کہ انہوں نے پیسے کو دھکیلا‘ دولت کو مسترد کیا مگر دولت ان کے پیچھے بھاگتی تھی۔ عمر بھر ان پر پیسے کا کبھی کوئی الزام نہ لگا۔ اسی طرح امام نورانی جب دنیا سے تشریف لے گئے ان کے کسی دشمن نے بھی ان پر کوئی الزام لگانے کی جرات نہ کی۔ ورنہ سیاست میں الزام کس پر نہیں لگتا؟ ہمارے سامنے اکابرین سیاست الزامات کے استعمار کے نیچے دبے رہے۔ مگریہ حقیقت ہے کہ امام شاہ احمدنورانی پرکسی کی پیالی چائے،پھوٹی کوڑی اورمالی معاونت کا کوئی الزام آج تک وجود میں نہیں آیا۔
15