بانی / سابقہ قیادت

قائدملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نوراللہ مرقدہ

علامہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ ایک تحریک کا نام ہے۔آپ ملت اسلامیہ کا اثاثہ ہیں،آپ کی شخصیت کے کئی حوالے ہیں،آپ پیر طریقت بھی ہیں،سیاست دان بھی،عوامی راہنما اور مذہبی پیشوا بھی،آپ کی دینی علمی،قومی اور ملی خدمات کا احاطہ کرنا چنداں آساں نہیں۔آپ کی تبلیغی خدمات سات سمندر پارتک پہنچی ہوئی ہیں،پاکستان اور بیرون پاکستان، دنیا بھر میں آپ نے اسلام کے پرچم کو بلند کیا۔
نام و نسب
علامہ شاہ احمد نورانی نے 18رمضان المبارک1344ھ31مارچ1926ءکومیرٹھ ہندوستان میں مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں آنکھ کھولی آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے اسی نسبت سے آپ کو صدیقی کہتے ہیں۔آپ کے اجداد افغانستان کے شمال میں واقع ایشیاء کے ایک قدیم ملک دریائے امو کے اس پار (ماور النہر) تاتارہ یاتوران کے شہر خجند سے ہندوستان آئے تھے،علامہ عبدالحکیم جوش میرٹھی جو ممتاز شاعر،نامور عالم دین اور میرٹھ کی شاہی مسجد کے خطیب بھی تھے علامہ شاہ احمد نورانی کے دادا حضور تھے جبکہ آپ کے والد مولانا عبدالعلیم صدیقی ہیں جنہیں سفیر اسلام اور قائداعظم محمد علی جناح کے قابل بھروسہ ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل رہاہے۔
تعلیم وتربیت
علامہ شاہ احمد نورانی نے1930ءمیں اپنے والد گرامی مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی سے چار سال دس دن کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا قرآن مجید فرقان حمیدآٹھ سال کی عمرمیں حفظ کیا آپ نے ابتدائی تعلیم ایسے اسکول میں حاصل کی جہاں ذریعہ تعلیم عربی زبان تھی نیشنل عربک کالج میرٹھ سے ڈگریاں حاصل کیں درسِ نظامی کی کتب متداولہ مدرسہ اسلامیہ قومیہ میرٹھ میں استاذ العلماء حضرت مولانا غلام جیلانی میرٹھی سے پڑھیں۔آپ کو دنیا کی تیرہ زبانوں پر عبور حاصل تھاآپ بیک وقت مستند عالم دین،حافظ قرآن،خوش الحان قاری عالمی شہرت یافتہ مبلغ،بلند پائیہ مقررعظیم اسلامی مفکر،سیاسی لیڈر تھے ذاتی طور پر نہایت نرم مزاج،خوش گفتاراور پیکر وانکسار واقع ہوئے تھے۔
آپ کی دستار بندی کے موقع پر آپ کے استاد محترم علامہ غلام جیلانی میرٹھی کے علاوہ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی،شاہ عبدالعلیم صدیقی،شہزادہ اعلیٰ حضرت شاہ مصطفےٰ رضا خان،مفتی اعظم ہند تشریف فرما تھے۔مولانا نورانی فراغت تعلیم کے بعد ہی سے اپنے والد کی طرح تبلیغ اوردینی سیاست میں سرگرم ہوگئے اس زمانے میں تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی چنانچہ آپ نے میرٹھ میں نوجوانوں کی ایک تنظیم نیشنل گارڈز کے نام سے بنائی جو علاقے میں ہندوؤں سے مقابلہ کرنے مسلم لیگ اور سنی کانفرنس کے جلسوں کا انتظام سنبھالنے پر مامور تھی۔
بیعت و خلافت اور زیارت حرمین شریفین
         مولاناشاہ احمد نورانی کو اپنے والد بزرگوار سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل ہے اور آپ نے پاکستان و بیرون پاکستان اپنی وسیع تبلیغی مساعی و مسلسل دینی جدوجہد اور شریعت و طریقت کی خدمات سرانجام دے کر اپنے والد ماجد کی نیابت و جانشینی کا حق ادا کیاہے آپ چودہ مرتبہ حج کعبہ و زیادت روضہ مقدسہ کا شرف حاصل کر چکے تھے اور جہاں تک حج کے علاوہ عمرہ کی ادائیگی و مدینہ منورہ کی حاضری کا تعلق ہے اس کی تعداد اس سے زیادہ ہے اور بار بار اس سعادت سے مشرف ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مدینہ منورہ سے روحانی قلبی تعلق کے علاوہ آپ کا رشتہ بھی مدینہ منورہ میں ہوا ہے اور آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت مخدوم اہلسنت شیخ طریقت حضرت مولانا شاہ محمد ضیاء الدین مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندارجمند حضرت مولانا شاہ محمد فضل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہے۔
        تحریری میدان میں کاوشیں:علامہ شاہ احمد نورانی نے تحریک ختم نبوت میں فعال کردار ادا کرنے کے علاوہ اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ بھی دین کی خدمت انجام دیں۔آپ نے دو ضخیم کتابیں عیسائیت اورآمریت کے رد میں تحریر فرمائیں۔(۱) دی سیل آف دی پرافٹ(مہر نبوت)(۲) جیس کرائسٹ دی لائٹ آف قرآن (یسوع مسیح قرآن کی روشنی میں)
تبلیغی خدمات:مولانا شاہ احمد نورانی نے اسلام کے آفاقی پیغام کودنیابھر میں پھیلانے کیلئے تبلیغی دورے کئے لاکھوں کافروں کو حلقہ بگوش اسلام کیاآپ کی تبلیغی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو کئی کتابیں تصنیف کی جاسکتی ہیں مگر اختصار کے ساتھ چند اہم امورپیش کئے جارہے ہیں۔
1953ء سے1964ء تک گیارہ سال مولانانورانی ورلڈ مسلم علماء آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل رہے جس کے صدر مفتی اعظم فلسطین تھے،مکہ مکرمہ دارارقم میں ورلڈ اسلامک مشن کی داغ بیل ڈالی12اپریل 1974ء کومولاناشاہ احمد نورانی کی زیر صدارت بریڈ فورڈ (برطانیہ)کے سینٹ جارجزہال میں ایک عظیم الشان عالمی کانفرنس ہوئی جس میں مختلف ممالک کے پچاس علماء شریک ہوئے اس کانفرنس میں مولانا شاہ احمد نورانی کو ورلڈ اسلامک مشن کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔اس موقع پر مولانا شاہ احمد نورانی نے 24ملکوں میں مشن کی شاخوں کے قیام کیلئے کنوینئرمقرر کئے۔جن میں پاکستان،بھارت،سری لنکا،انڈونیشیاتنزانیہ،پرتکال،صومالیہ،جنوبی افریقہ،سینیگال،نائیجریا،مصر، شام،عرق، افغانستان، مغربی جرمنی، فرانس، ہالینڈ،انگلینڈ،امریکہ،سرینام (ڈچ گیانا)،ارجنٹائن،سعودی عرب اور ٹرینی ڈاڈشامل ہیں۔آپ نے ورلڈ اسلامک مشن کو یورپ اور امریکہ میں منظم کرنے کا فریضہ انجام دیااور چیئرمین ورلڈ اسلامک مشن کی حیثیت سے تمام براعظموں کے دورے کئے اور ورلڈ اسلامک مشن کی تنظیمیں قائم کیں۔
        مولانا نورانی کی سرپرستی میں کئی دیگرادارے بھی دنیا کے مختلف ممالک میں کام کررہے ہیں جنکے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
(ا)حلقہ قادریہ علیمیہ اشاعت اسلام (ماریشس)(۲) علیمیہ اسلامک مشن کالج(ماریشس) (۳)علیمیہ دارلعلوم(ماریشس)(۴)ورلڈ اسلامک مشن (ماریشس)(۵)حلقہ قادریہ علیمیہ اشاعت اسلام سیلون (سری لنکا)(۶)ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن (گیانا)(۷)مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ،جارج ٹاؤن(امریکہ)(۸)اسلامک مشنریز گلڈ (ساوتھ امریکہ)(۹)آل ملایا مسلم مشنری سوسائٹی (ملائشیا)(۱۰)حنفی مسلم سرکل،پریسٹن(برطانیہ) (۱۱)دارالعلوم جامعہ مدینہ الاسلام،ڈین ہاگ(ہالینڈ)(۱۲)دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی،ضلع بستی یوپی (انڈیا)(۱۳) ورلڈ اسلامک مشن (پاکستان)(۱۴) بابا فرید الدین گنج شکر ویلفیئرایجوکیشن سوسائٹی(پاکستان)(۱۵)ورلڈ تبلیغی کالج گلشن اقبال کراچی(پاکستان)۔
سیاسی خدمات
           مولانا شاہ احمد نورانی نے پاکستان میں قیام کے دوران1953 ء تا2003ء پورے50سال ملک کی سیاست میں بھرپور حصہ لیااس نصف صدی کی ملکی سیاست میں آپ کی گراں قدر خدمات ہیں جس پر کئی مقالے لکھے جاسکتے ہیں لیکن یہاں اختصار کے ساتھ چند اہم بنیادی کارناموں کا ذکر کیا جارہا ہے۔
        مولانا شاہ احمد نورانی نے1953 ء میں ملکی سیاست کی ابتداء جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے کی اور تادم واپسیں اسی پلیٹ فارم سے سیاست کرتے رہے،1953ء میں تحریک ختم نبوت اور1956ء میں تدوین دستور کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔1968ء میں باقاعدہ سیاست میں آئے اور جے یو پی کی ازسر نو تنظیم میں بنیادی کردار ادا کیا۔اس وقت جمعیت علماء پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہی تھی اور اس کے درج ذیل گروپ کام کررہے تھے (۱) صاحبزادہ فیض الحسن گروپ(۲) علامہ عبدالحامد بدایونی گروپ،(۳) علامہ عبدالغفور ہزاروی گروپ،(۴) علامہ محمود رضوی گروپ،(۵)مولانا خلیل احمد قادری گروپ،(۶) مولانا سید محموداحمد شاہ گجراتی گروپ،ہر گروپ اپنے نہج پر کام کررہا تھا، 1970ء میں غزالی زماں علامہ سیداحمدسعید شاہ کاظمی اورمفتی اعظم پاکستان ابوالبرکات محمد احمد قادری کے ساتھ مل کر جے یو پی کے تمام دھڑوں کوخواجہ قمرالدین سیالوی کی قیادت میں منظم کیااورآپ جمعیت علماء پاکستان کے نائب صدر اول منتخب ہوئے۔ 1970ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔جے یو پی کے پارلیمانی لیڈر اور قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلہ میں وزیر اعظم کا الیکشن لڑا 15اپریل1972ء کو پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں فتنہ مرزائیت کے خلاف کھل کر اور تفصیلی تقریر فرمائی اور مسلمان کی تعریف دستور میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 19دسمبر1972 ء کو صدر جمعیت علماء پاکستان خواجہ قمر الدین سیالوی کے استعفیٰ کے بعد قائم مقام صدرجے یو پی مقرر ہوئے 1973ء میں سینٹ کےرکن منتخب ہوئے27مئی1974ء کوخانیوال کنونشن میں جےیو پی کےصدرمنتخب ہوئے۔ اس دوران دو دفعہ استعفیٰ دیا لیکن جے یو پی کی شوریٰ و عاملہ نے استعفیٰ منظورنہیں کیا اس طرح آپ 11ستمبر2003ء تک منصب صدارت پرفائزرہے۔30جون1974ء کوقومی اسمبلی میں قادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت قرار دینے کی قرار پیش کی جو7ستمبر1974ء کو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔1977ء میں نو دینی جماعتوں کا اتحاد عمل میں آیا جو قومی اتحاد کے نام سے مشہور ہواجس میں قائد اہلسنت نے بھرپور کردار ادا کیا۔1977ء میں دوسری مرتبہ حیدرآباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 23مارچ 1995ء کوملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں آیا اور آپ اس کے صدر منتخب ہوئے۔جولائی 2001ء میں چھ دینی جماعتوں کا سیاسی اتحادمتحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں آیا اور آپ کو چھ ماہ کیلئے صدر منتخب کیا گیاچھ ماہ بعد بھی متحدہ مجلس عمل کے قائدین نے آپ ہی کی صدارت پر اعتماد کا اظہار کیا۔دینی جماعتوں نے 19مارچ2002 ء کومتحد مجلس عمل کے نام سے قائم کئے گئے اتحاد کو باقاعدہ سیاسی اتحاد میں تبدیل کردیا2اپریل2002ءکو متحدہ مجلس عمل کے منشور کی منظوری دے دی گئی جس میں کہا گیا کہ مجلس عمل برسر اقتدار آکر ملک میں نظام مصطفی ﷺ نافذ کرے گی۔
ایم ایم اےنے 23جولائی2002ء سے انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا10اکتوبر2002ء کے عام انتخابات میں مولانا شاہ احمد نورانی کی ولولہ انگیز قیادت میں ایم ایم اے نےبھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔4 فروری2003ء کوسینٹ کے انتخابات ہوئے اور مولانا شاہ احمد نورانی سندھ سے سینٹ کے رکن منتخب ہوئے اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ڈٹ کر باوردی صدرمشرف کا مقابلہ کیا۔
وفات
      علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نوراللہ مرقدہ نے 17شوال 1434ھ بمطابق  11دسمبر2003ءکووصال فرمایا۔آپ کی تدفین کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے احاطے میں 12دسمبر2003ء بروز جمعۃ المبارک کو ان کی والدہ کے قدموں میں ہوئی۔اناللہ واناا لیہ راجعون۔

     مجاہدملت پاسبان ختم نبوت مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ

 مجاہد ملت مولانا محمد عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ عظیم شخصیت ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیزقیادت میں ان کے شانہ بشانہ کام کیا اور قائد اعظم کے بعد قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نوراللہ مرقدہ کی قیادت میں جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے مقام مصطفی ﷺ کے تحفظ اور نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کیلئے اپنی آخری عمر تک جدوجہد کی۔
نام ونسب:مولانا محمدعبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر1915 کو ضلع میانوالی کے گاؤں ”اٹک پنیالہ“میں ذوالفقار خان نیازی کے گھر پیدا ہوئے۔
آباؤ اجداد:مولانا عبدالستار خان نیازی نے خالصتاََ دینی ماحول میں آنکھ کھولی ان کے گھر کی خواتین تک تہجد گزار تھیں آپ کے والد گرامی ذوالفقار خان پاکباز اور تہجد گزار بزرگ تھے،لوگ ان کی باکبازی کی قسمیں کھایا کرتے تھے ان کے نا نا صوفی محمد خان بہت نیک بزرگ تھے۔
تعلیم: مولانا عبدالستار خان نیازی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے نزدیک ایک پہاڑی موڑ پر واقع گاؤں کنڈل کے گورنمنٹ پرائمری اسکول سے حاصل کی۔آپ اسکول سے واپسی پر ہی مولوی صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے اس طرح صرف تین چار ماہ میں قرآن پاک پڑھ لیا۔آپ دوسری جماعت کے طالب علم تھے جب آپ نے ماہ رمضان کے پہلی مرتبہ روزے رکھے،جماعت چہارم میں اسکالرشپ حاصل کرنے کے بعدگورنمنٹ ہائی اسکول عیسیٰ خیل سے1933 میں میٹرک کیا۔جماعت ہشتم کے مقابلہ مضمون نویسی میں ضلع بھر میں اول آئے مولانا عبدالستار خان نیازی نے چھوٹی عمر ہی سے اسلامی کتب اور تاریخ کا مطالعہ شروع کر دیا تھاآپ اپنے اسکول کی لائبریری کے انچارج بھی تھے۔اسی سال لاہور چلے گئے اور حکیم الامت کے قائم کردہ ”اشاعت اسلام کالج“میں داخل ہوئے۔کالج میں فقہ،حدیث،تفسیر،تاریخ اسلام وغیر کے مضامین پڑھائے جاتے تھے 1935 میں کالج میں شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا 1936 میں آپ نے امتحان میں ماہر تبلیغ کی حیثیت سے ٹاپ کیا۔آپ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس کالج سے ملنے والی سند پر مفکر اسلام علامہ اقبال کے دستخط موجود تھے مزید تعلیم کے لئے اسلامیہ کالج لاہور کے طالب بنے یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہن کی سیاسی آبیاری بھی ہوئی 1938 میں بی اے اور 1940 میں ایم اے کیا پھر اسی کالج میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔
ملی خدمات:مولانا عبدالستار خان نیازی ایک شخصیت نہیں ایک ادارہ،ایک مشن کانام ہے اور ملک میں اسلامی نظام کے قیام کیلئے ان کی خدمات تاریخ کا روشن باب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل اور جامع تاریخ ہے۔آپ نے مسلمانوں میں ملی تشخص کو اجاگر کرنے اور ملی بیداری و شعور پیدا کرنے کیلئے 1935 میں میانوالی میں ”انجمن اصلاح قوم“کے نام سے ایک تنظیم قائم کی،کچھ ہی عرصہ بعد اسی تنظیم کا نام بدل کر ”انجمن اصلاح المسلمین“رکھا،جب 1936 میں اسلامیہ کالج کے طالب علم تھے تو چند ملت کے غمگسار ساتھیوں میاں محمد شفیع (م،ش)جسٹس انوار الحق،ابراھیم علی چشتی،حمید نظامی اور عبدالسلام خورشید کے ہمراہ علامہ محمد اقبال سے ملے اس نشست میں مسلم طلباء کی تنظیم سازی کے موضوع پر گفتگو ہوئی اس سلسلے میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے اپنی طرف سے کچھ تجاویز پیش کیں جن کی آپ کے رفقاء نے مصلحت کی بنا پر مخالفت کی لیکن کرسی پر بیٹھے چادر اوڑھے علامہ اقبال نے فوراََاپنادایاں ہاتھ چادر سے نکال کرہوا میں بلند کرتے ہوئے فرمایا”میں مسٹر نیازی کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں“چانچہ علامہ اقبال کے مشورے سے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی گئی اگلے سال مولانا عبدالستار خان نیازی کو اس کا صدر نامزد کیا گیا۔
آپ نے 1939 میں فیڈریشن کی طرف سے ایک پمفلٹ ”خلافت پاکستان“کے عنوان سے شائع کروایافیڈریشن نے اس کی ایک کاپی قائد اعظم محمد علی جناح کو بھیجی جب اکتوبر1939 میں فیڈریشن کے وفد نے مولانا عبدالستار نیازی کی قیادت میں قائد اعظم سے ملاقات کی تو قائد اعظم نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا،آپ کی اسکیم بہت گرم ہے،مولانا نیازی نے برجستہ جواب دیا،”کیونکہ یہ کھولتے ہوئے دل سے نکلی ہے“ یکم مارچ1941 میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے اسلامیہ کالج لاہور میں قائد اعظم کی زیر صدارت پاکستان کانفرنس منعقد کی اس موقع پر مولانا عبدالستار خان نیازی نے زبر دست تقریر کی قائداعظم جو ہمہ تن گوش تھے قریب بیٹھے ایک مسلم لیگی سے فرمانے لگے یہ تقریر سننے کے بعد مجھے کامل یقین ہو چلا ہے کہ”اگر مسٹر نیازی جیسے میرے ساتھ رہے تو ہم پاکستان حاصل کرلیں گے“انشاء اللہ
مولانا نیازی 1946 کے الیکشن میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر MNA منتخب ہوئے عام انتخابات میں مسلم لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود گورنر نے پنجاب میں یونیلسٹ پارٹی،کانگریس اور اقلیت کے نمائندوں کو ساتھ ملا کر فرنگی حکومت کے سہارے وزارت قائم کرلی مسلم لیگ کے اراکین کی طرف سے خضر وزارت پر شدید دباؤ تھاخضر مخالف تحریک میں مولانا عبدالستار خان نیازی پیش پیش تھے چنانچہ خضرحیات نے آپ کو ساتھ ملانے کیلئے جاگیرکا لالچ دینا چاہا تو فرمایا تم چند ایکٹر زمین کی بات کرتے ہو”ہم چھ صوبوں کا پاکستان مانگتے ہیں“۔
وزارت کی پیشکش کی تو فرمایا”میرے لئے اللہ ہی کافی ہے“1947 میں سول نافرمانی کی تحریک میں جیل گئے آخر کار 14اگست1947 کو پاکستان بن گیا۔قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی مسلم لیگ انتشار کا شکار ہوگئی جب 1950 ؁ء کو آل پاکستان عوامی لیگ نبی تومولانا عبدالستار خان نیازی کواس کا جنرل سیکریٹری،شیخ مجیب الرحمن جوائنٹ سیکریٹری جبکہ حسین شہید سہروردی صدر بنے لیکن1951 کے عام انتخابات میں آپ نے صوبائی اسمبلی کی نشست پرآزاد حیثیت سے حصہ لیا اورجس میں مسلم لیگ کے نامزد امیدوار کو شکست دی اس صوبائی اسمبلی میں آپ نے پردہ بل پیش کیا۔مارچ 1953 کو حکومت وقت نے تحریک ختم نبوت میں گرفتار کر لیااس کی پاداش میں پھانسی کی سزا ہوئی بعد میں یہ سزا حکومت نے خود ہی منسوخ کردی اس طرح غازی تحریک ختم نبوت اور فاتح تختہ دار کا لقب پایا،جبکہ اسی نسبت سے ممتاز عالم دین علامہ احمد سعید کاظمی (ملتان)نے آپ کو”مجاہد ملت“کے خطاب سے سرفراز کیا۔
1954 کے انتخابات میں مولانا نیازی نے ایوب خان کے مقابلہ میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا1970 میں جمعیت علماء پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔پھر ہمیشہ کیلئے جمعیت کے ساتھ لازم وملزوم ہوگئے آپ کی حق گوئی اور بیباکی کی بدولت ہر حکومت نے دھاندلی سے اسمبلی میں آنے سے روکاجیسا کہ 1964,1970,1977 کے انتخابات سے ثابت ہے۔ خصوصاََ آپ کے حلقہ کے نتائج کو شرمناک طریقے سے بدلہ گیا۔1990اور1998 کے انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر بھی رہے پھر مشرف حکومت آنے تک سینیٹر کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے سیاست میں قدم رکھنے سے پیرانہ سالی تک آپ کا منشور نفاذ اسلام رہا ہے آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حکومت پاکستان نے آپ کو مثالی جذبہ اور نمایاں خدمات کے اعتراف میں ”تحریک پاکستان گولڈ میڈل“دیا علاوہ ازیں جب ہندوستان نے دور مار پرتھوی نامی میزائل کا تجربہ کیا تو آپ نے حکومت وقت پر زور دے کرپارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا پرتھوی نامی میزائل کے مقابلہ میں ”غور ی میزائل بناؤ“ چنانچہ ممتازایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے آپ کے مجوزہ نام کو حقیقت کا روپ دے دیا۔
مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا نورانی کی جوڑی ایک زمانے تک اہلسنت مکتبہ فکر کیلئے تقویت کا باعث رہی لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اس سیاسی جوڑی میں دراڑ پڑ گئی اور جمعیت دو حصوں یعنی نورانی گروپ اورنیازی گروپ میں بٹ گئی۔مولانا عبدالستار خان نیازی نے نیازی گروپ کی تشکیل میں صاحبزادہ فضل کریم کو اپنا مرکزی نائب صدر انجنیئرسلیم اللہ کو سیکریٹری جنرل اور اپنے بہنوئی سرور خان نیازی کو مالیات کے شعبہ کا نگراں ن مقرر کیا۔لیکن صاحبزادہ فضل کریم صوبائی وزارت کو پیارے ہوگئے اور صوبائی وزیربننے کے ساتھ ساتھ جمعیت کے ایک نئے گروپ (فضل کریم)کے بانی صدر بن گئے۔نیازی گروپ کے سیکریٹری جنرل انجینئر سلیم اللہ خان جنرل مشرف کے دور میں مولانا نیازی کو مفارقت کا داغ دے کر اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے فیضیاب ہوئے اور نفاذ شریعت کے نام سے جمعیت کا نیا گروپ سامنے لے آئے۔بعد ازاں صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کی کوششوں سے مولانا عبدالستار خان نیازی اور علامہ شاہ احمد نورانی میں پھراتحاد ہو گیا اور دونوں جمعیتیں ایک ہو گئیں مولانا عبدالستار خان نیازی جمعیت کے صدربنے اور مولانا شاہ احمد نوارانی سپریم کونسل کے چیئرمین بنے۔مولانا عبدالستار خان نیازی آخری عمر میں اپنے سیاسی حلیف میاں نواز شریف سے بہت مایوس تھے۔کیونکہ مولانا نیازی کی زیر سربراہی قائم ہونے والی اتحاد بین المسلمین کمیٹی کی مذہبی ہم آہنگی کے لئے تیارکی گئی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے سے میاں صاحب نے احتراز برتااور سود کے بارے میں بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی رٹ دائر کردی۔
وصال:
مجاہد ملت مولانا محمدعبدالستار خان نیازی 86 برس کی عمر میں بدھ 2 مئی 2001 کی صبح ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال میں انتقال کرگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون ان کی نماز جنازہ انکے پیر خانے کے سجادہ نشین پیر آف بھور شریف مولانا خواجہ محمد صدیق نے پڑھائی تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔مرحوم کی وصیت کے مطابق آپ کومجاہد ملت کمپلیکس روکھڑی موڑ میں سپردخاک کیا گیا۔

پروفیسر سید شاہ فرید الحق رحمۃ اللہ علیہ

مرد حق پروفیسر سید شاہ فریدالحق نے یکم جولائی1933ء کو یو پی بلیا کے قصبہ سکندر پور ہندوستان میں سید شاہ بشیر الحق کے گھر میں آنکھ کھولی آپ کا خانوادہ حسنی سادات ہے اورآپ سیدنا غوث اعظم نوراللہ مرقدہ کے چشم و چراغ اور اپنی اعلیٰ خاندانی روایات کے امین تھے آپ کے گھر کا ماحول مذہبی و زمیندارانہ تھاآپ کے پیرو مرشد سید مصطفی رشیدی ہیں آپ نے ابتدائی تعلیم سے لیکر میٹرک بلیایو پی ہی میں حاصل کی گریجویشن 1956ء میں آگرہ یونیورسٹی سے کیاجبکہ1958ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی کیا تعلیم سے فارغ ہوتے ہی 1958ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کے علاقے لیاقت آباد،سکندرآباد میں ایک جھگی بنا کر سکونت اختیار کی۔قیام پاکستان کے بعد آپ نے اسلامیہ کالج جوائن کیا اور1958سے 1973ء تک تدریسی سلسلہ جاری رہااسلامیہ کالج کی تدریس کے دوران بہت سے شاگرد ایسے تھے جنہوں نے مستقبل میں بڑا نام کمایا ان میں ایک نام جنگ کے میر شکیل الرحمن کا ہے دوران تدریس ہی1968ء میں شہید ملت لیاقت علی خان کی یاد میں لیاقت نیشنل کالج ملیر کی بنیاد رکھی جو1973ء میں نیشنلائز ہوگیاآپ نے امام احمد رضا فاضل بریلوی کے ترجمہ قرآن ”کنزالایمان فی ترجمہ القرآن“ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جبکہ آپ نے 10پاروں کا حاشیہ بھی انگریزی زبان میں مکمل کیااس کے علاوہ کئی درسی کتب تحریر کیں سیاسیات پر کئی کتابیں بھی تصنیف کیں جوکہ کراچی یونیورسٹی میں بی اے اور ایم اے کے نصاب میں شامل ہیں اس کے علاوہ رد”قادیانیت“ میں ایک انگریزی کتاب (Below to Qadyaniyat)تحریر کی۔
پروفیسر سید شاہ فرید الحق کے تین بیٹے اورپانچ بیٹیاں ہیں جو سب کے سب شادی شدہ ہیں بڑے بیٹے سید شاہ شاہد الحق کاروبارکرتے ہیں دوسرے بیٹے شاہ ضیاء المصطفیٰ بینک میں ملازم ہیں اور تیسرے بیٹے شاہ محمد عبدالحق سرسید یونیورسٹی میں برسرروزگار ہیں۔
پروفیسر سید شاہ فرید الحق نے1970ء کے انتخابات میں علامہ شاہ احمد نورانی اور علامہ عبدالمصطفیٰ الازھری کے اصرار پر جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے ملیر کے صوبائی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیااور تاریخی کامیابی حاصل کی اور یہیں سے باقاعدہ سیاسی سفر کا آغاز ہواآپ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ علامہ شاہ احمد نورانی کی رفاقت میں نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہوئے گزاراPNA،نظام مصطفی ﷺ سمیت ملک میں چلنے والی کئی تحریکوں میں حصہ لیاجبکہ ملی یکجہتی کونسل،متحدہ مجلس عمل اور دیگراتحادوں میں انتہائی فعال کردار ادا کیا۔آپ سندھ اسمبلی میں جے یو پی کے پارلیمانی لیڈر اور قائد حزب اختلاف بھی رہے اپنی پارلیمانی زندگی میں بطور اپوزیشن لیڈر سب سے زیادہ قرارداد پیش کرنے کا قومی ریکارڈ قائم کیاجو آج تک موجود ہے اور کراچی سے پروفیسر ایں ڈی خان کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے آپ نگراں وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کی حکومت میں وفاقی وزیرزرعی تحقیق اور صوبائی وزیراوقاف بھی بنے۔آپ جمعیت علماء پاکستان کے سنیئرنائب صدر اور سیکریٹری جنرل بھی منتخب ہوئے۔آپ قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نوارانی رحمۃ اللہ علیہ کے رفیق خاص تھے قائد اہلسنت کے وصال کے بعد آپ جمعیت علماء پاکستان کے صدر بنے عالمی تبلیغی ادارے ورلڈ اسلامک مشن کے وائس چیئرمین بھی رہے۔
پروفیسر سید شاہ فرید الحق نے قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی اور مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کے ساتھ عالمی دورے بھی کئے پورپ،امریکہ،ساؤتھ افریقہ، نیروبی،ماریشس سمیت دیگر کئی ممالک کے دورہ کر کے وہاں کی حکومتوں اور مقتدر لوگوں کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے حکومتی فیصلے سے آگاہ کیااور دنیا بھر میں اس کی تشہیر کی 1974ء مین عالمی دورے سے واپسی پر عمرہ کی سعادت حاصل کی روضہ رسول پر حاضری کے بعد قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے کمال مہربانی و شفقت سے اجازت و خلافت سے نوازااور ساتھ ہی حدیث کی سند بھی عطا فرمائی۔
1977ء میں تحریک نظام مصطفی ﷺ میں قائد اہلسنت کے ساتھ ہر اول دستے کے طورپر کام کیا اس دوران تین ماہ تک سکھر جیل میں قیدوقید کی صعبتیں برداشت کیں۔اسی دوران اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان کے اردو ترجمہ قرآن کنزالایمان کا انگریزی ترجمہ شروع کیاجو تقریبا7سال لگاتار محنت کے بعدپایہ تکمیل کو پہنچا۔
پروفیسر سید شاہ فرید الحق نے پیر 30محرم الحرام 1433ھ بمطابق26 دسمبر2011ء کوکراچی میں رحلت فرمائی۔آپ کی نماز جنازہ منگل 27دسمبر2011ء کوبعد نماز ظہر مدنی مسجد گلشن اقبال بلاک15کراچی میں ادا کی گئی اوراسی مسجد میں قائد اہلسنت امام شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کے دیرینہ رفیق سفر حضر ت علامہ محمد حسن حقانی رحمۃ اللہ علیہ کے پہلومیں سپردخاک کیا گیا۔

ابوالحسنات سید محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ

مولانا ابوالحسنات 1896ء میں ریاست الور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ سید دیدار علی شاہ کے فرزند اکبر تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز پانچ سال کی عمر میں مفتی زین الدین کے درس سے حفظ قرآن سے کیا۔ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ مرزا احمد بیگ سے اردو و فارسی کی مروجہ کتب کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ قاری قادر بخش الوری کی زیر نگرانی قرأت و تجوید میں مہارت حاصل کی۔ 1908ء میں آپ حفظ قرآن‘ اردو‘ فارسی انشا پردازی اور قرأت و تجوید میں خاصی دسترس حاصل کر چکے تو درس نظامیہ کے باقاعدہ طالبعلم بنے۔ صرف و نحو اور دیگر فنی کتب دینیہ کا مطالعہ اپنے والد مکرم سے کیا۔مولانا ابوالحسنات نے پندرہ سال کی عمر میں تفسیر بیضاوی‘ جلالین‘ کتب احادیث‘ منطق و اصول‘ فقہ اور عربی ادب کی کتب پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ منتہی کتب کا مطالعہ حضرت مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی اور حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی سے کیا اور اسناد فضیلت حاصل کیں۔ علم طب آپ نے نواب حامی الدین احمد خاں مراد آبادی سے سیکھا اور تکمیل قرأت کیلئے رئیس القراء مولانا عین القضاء سے سند حاصل کی۔ آپ علوم دینیہ سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ الور کی مسجد شہید کر دی گئی۔ اس واقعہ نے الور میں رنج و اضطراب کی لہر دوڑا دی۔ جواں سال ابو الحسنات کو مسجد کی ناموس نے پکارا اور وہ ملکی سیاست میں کود پڑے۔ وہ مسجد کی تعمیر نو اور بحالی کیلئے مصروف عمل ہو گئے اور اپنے زور خطابت سے لوگوں کے سینوں میں عزم نو پیدا کر دیا۔ اس پر آپ کی گرفتاری بھی عمل میں آئی لیکن حکومت وقت مسجد کو سرکاری خرچ پر ازسر نو تعمیر کروانے پر مجبور ہو گئی۔ 1920ء میں آپ الور کو چھوڑ کر آگرہ میں قیام پذیر ہوئے اور ایک مطب شروع کیا۔ مطب گلاب خانہ آگرہ میں تھا جو تھوڑے ہی عرصے میں خدمت خلق کا ادارہ بن گیا۔ 1922ء میں آپ کے والد سید دیدار علی شاہ آگرہ سے لاہور پہنچے اور مسجد وزیر خان کے خطیب مقرر ہوئے تو مولانا ابوالحسنات ان دنوں ایک نغز گو قاری‘ شعلہ بیان خطیب اور ماہر طبیب کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ والد مکرم کے استعفا کے بعد آپ مسجد وزیر خان کے خطیب اور مفتی مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں دہلی دروازے کے اندر ایک ویران مسجد کی تعمیرو توسیع اور دارالعلوم کے قیام گاہ کامنصوبہ بنایا گیا جس میں آپ نے اپنے والد مکرم اور برادر محترم مولانا ابوالبرکات کے ساتھ مل کر مسجد کی تعمیر اور دارالعلوم حزب الاحناف کی تشکیل میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ دارالعلوم حزب الاحناف عظیم دینی ادارہ تھا جو نصف صدی تک علوم و فنون کا مرکز رہا۔ یہاں سے بڑے بڑے علماء مفتی‘ مقرر‘ ادیب اور مناظر نکلے اور دنیائے علم و فضل پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔مولانا ابوالحسنات نے برصغیر کی ہر سیاسی و دینی تحریک میں اپنا کردار ادا کیا۔ کشمیر چلو کی مہم‘ مسجد شہید گنج کی تحریک‘ خاکسار تحریک‘ احرار کشمکش‘ مجلس اتحاد‘ شہادت غازی علم الدین‘ مولانا ظفر علی خان کا دم مست قلندر دھر رگڑا‘ تحریک آزادی ہند اور قیام پاکستان کی تحریکوں میں بھرپور انداز سے حصہ لیا اور ہمیشہ حق کی آواز پر لبیک کہا۔نظریہ پاکستان کی تائید و حمایت کیلئے وہ لاہور کے پہلے عالم دین تھے جو بنارس سنی کانفرنس میں شریک ہوئے اور تاریخی قرارداد پاس کرا کے قائداعظمؒ کو یقین دلایا کہ برصغیر کی عظیم اکثریت مطالبہ پاکستان میں آپؒ کے ساتھ ہے۔ قائداعظمؒ نے آپ کی کوششوں کو سراہا اور ایک خط میں آپ کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے قیام پاکستان کی تحریک میں بڑی تن دہی اور لگن سے کام کیا۔1945ء میں آپ پہلی بار حج کیلئے روانہ ہوئے۔ دیار حبیبﷺمیں آپ نے عربی زبان میں اتنی فصیح و بلیغ تقاریر کیں کہ دنیائے اسلام سے آئے ہوئے تمام علماء نے آپ کو خراج تحسین پیش کیا۔ حج کے موقع پر آپ قصیدہ بردہ شریف عربی میں اس قدر خوش الحانی سے پڑھتے کہ سامعین پر رقت طاری ہو جاتی۔ حج سے واپسی پر آپ نے قصیدہ بردہ شریف کی اردو شرح کی جسے ’’طیب الوردہ علی قصیدہ البردہ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔مارچ 1948ء میں پاکستان بھر کے مذہبی علماء کی ملتان میں عظیم کانفرنس بلائی گئی جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے سنی علماء نے ’’جمعیت علمائے پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آپ کو بالاتفاق پہلا صدر منتخب کیا گیا اور آپ تاحیات صدر رہے۔قیام پاکستان کے فوراً بعد مولانا ابوالحسنات نے صدر جمعیت علمائے پاکستان کی حیثیت سے جہاد کشمیر کا اعلان کیا اور غازیان کشمیر کی اعانت کیلئے ملک میں تحریک چلائی۔ عوام نے دل کھول کر کشمیر فنڈ جمع کرنے میں حصہ لیا اور مولانا ابوالحسنات کئی بار محاذ کشمیر پر گئے جہاں مجاہدین کے حوصلے بڑھائے اور میدان جنگ میں پہنچ کر فوجیوں کے کیمپوں میں مجاہدانہ روح پھونکنے والی تقاریر کیں اور سامان جنگ و دیگر ضروریات جمع کر کے پہنچائیں۔1952ء میں تحریک ختم نبوت میں آپ نے مرکزی رہنما کے طور پر حصہ لیا۔ اس تحریک میں تمام مکتب فکر کے علماء نے ابوالحسنات کو اپنا قائد منتخب کیا۔ مولانا ابوالحسنات نے قلمی تبلیغ کو منظم پیمانے پر رواج دیا اور اسلامی موضوعات پر مختلف کتابیں لکھیں۔ آپ کی شائع شدہ تصانیف درج ذیل ہیں:1- تفسیر الحسنات (پہلے دو حصے دس پارے)2- اوراق غم3- صبح نور4- طیب الوردہ علی قصیدہ البردہ5- مسدس حافظ الوری6- مخمس حافظ7- دیوان حافظ (اردو)8- ترجمہ کشف المحجوبیہ عظیم زعیم
وفات
 2شعبان المعظم 1380ھ بمطابق 20جنوری 1961ء اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی آخری آرام گاہ مزار حضرت داتا گنج بخشؒ کے احاطہ میں ہے۔

تحریک آزادی کے رہنما،مجاہدِ ملت:مولانا عبدالحامد بدایو نی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا عبدالحامد بدایوانی نے مولانا عبدالقادر بدایونی، مولانا محب احمد، مولانا مفتی محمد ابراہیم، مولانا مشتاق احمد کانپوری، مولانا واحد حسین اور مولانا عبدالسلام فلسفی سے تعلیم حاصل کی، پھر الہٰیات کی تکمیل اور قرات کے شوق میں دو سال تک مدرسہ الہٰیہ کانپور میں مقیم رہے اور وہاں سے بدایوں آکر مدرسہ شمس العلوم کے نائب مہتمم مقرر ہوئے۔ تقریر، خطابت اور وعظ گوئی آپ کے خاندان کا ہمیشہ طرۂ امتیاز رہا، چنانچہ مدرسہ شمس العلوم کے سالانہ جلسوں میں آپ کی تقاریر خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی تھیں۔ مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ نے 1914ء میں تحریک خلافت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور ملکی سیاست میں باقاعدہ عملی حصہ لینا شروع کر دیا۔برصغیر میں انگریزوں کے داخلے اور قبضے کے وقت مولانا بدایونی کے ایک محترم بزرگ مولانا فیض احمد بدایونی ؒ نے علامہ فضل حق خیرآبادی شہید کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا تحریک شروع کی اور فتویٰ جاری کر دیا۔ تحریک خلافت کے زمانے میں مولانا عبدالباری فرنگ محلی نے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کو پہلی بار لکھنو سے مولانا عبدالمقتدر بدایونی کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ دونوں بھائی بدایوں تشریف لائے اور آستانہ عالیہ قادریہ کے ان کمروں میں ٹھہرائے گئے جہاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی اور دیگر مشائخ قیام فرمایا کرتے تھے۔
مولانا عبدالمقتدر نے مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا عبادلحامد بدایونی کو حکم دیا کہ علی برادران کی خاطر تواضع میں کمی نہ کی جائے۔ اس کے بعد اپنے اہل خاندان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔۔۔علی برادران اسلام کے سچے اور مخلص مجاہدہیں جو انگریزوں کے خلاف صف آراء ہیں۔ مَیں اپنے خاندان کو عموماً اور مولانا حامد میاں اور مولانا ماجد میاں کو خصوصاً حکم دیتا ہوں کہ یہ دونوں انگریزوں کے خلاف تحریک میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ چنانچہ بدایونی برادران نے اپنے پیر و مرشد کے حکم کے مطابق ہندوستان کے ایک ایک گوشے میں پہنچ کر تحریک خلافت کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ مولانا بدایونی ؒ آل انڈیا خلافت کانفرنس کے رکن اور ڈسٹرکٹ خلافت کمیٹی بدایوں کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ آپ نے نہرو رپورٹ کی مخالفت میں مسلمانان ہند کی حمایت کرتے ہوئے عظیم الشان کانفرنسوں میں شرکت کی اور اس تحریک میں بھی مولانا حسرت موہانی ،مولانا آزاد سبحانی اور مولانا عبدالماجد بدایونی ؒ کے ساتھ کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ تحریک خلافت کے بعد آغا خان کی صدارت میں مسلم کانفرنس کی بنیاد پڑی۔ مولانا بدایونی اس کانفرنس کے صف اول کے قائدین میں شامل تھے۔ اس کے بعد لندن میں گول میز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی معرکتہ الارا تقریر مولانا محمدعلی جوہر کی تھی جو یادگار سمجھی جاتی ہے۔ اس تقریر کو مولانا بدایونی نے خلافت کمیٹی بدایوں کی طرف سے کتابی شکل میں شائع کرایا۔(جاری ہے)
ئیس الاحرار مولانا محمد علی ؒ کے انتقال کے بعد قائداعظم نے مولانا شوکت علی اور نواب اسماعیل خان سے مشورے کے بعد دہلی میں ہندوستانی مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو مدعو کرنے کی تجویز پیش کی۔ مولانا بدایونی نے جمعیت العلمائے یو پی کے قائد کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ علامہ بدایونی یوپی۔ سی پی بہار۔اڑیسہ، بنگال، آسام، ممبئی، کراچی، سندھ، بلوچستان ، پنجاب اور سرحد کے دورافتادہ مقامات پر قائداعظمؒ کی ہدایت پر مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے سرگرم عمل رہے۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں خان برادران کے مقابلے میں نمایاں کامیابی پر آپ کو فاتح سرحد کا خطاب دیا گیا۔مولانا عبدالحامد بدایونی مسلم لیگ کانفرنس منعقدہ لکھنوء 1937ء سے لے کر 1947ء تک اور قیام پاکستان کی تحریک میں سراپا مصروف رہے۔ مولانا بدایونی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ مسلم لیگ کے سٹیج سے مولانا کی تقریروں میں ہمیشہ یہ پہلو نمایاں رہتا کہ ہم ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، جہاں کتاب و سنت کے مطابق حکومت قائم کی جائے اور ایک اسلامی و فلاحی معاشرہ قائم ہو۔قائداعظمؒ اور لیاقت علی خانؒ نے ایک وفد سعودی عرب روانہ کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ حجاج کرام اور دنیائے عرب کو پاکستان اور مسلم لیگ کے موقف سے روشناس کرایا جائے اور حاجیوں کا ٹیکس ختم کرانے کے سلسلے میں جدوجہد کی جا سکے۔ اس وفد میں مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی، مولانا عبدالحامد بدایونی اور سیدنا طاہر سیف الدین کے نمائندے بھی شریک تھے۔ اس وفد نے سلطان ابنِ سعود سے کامیاب مذاکرات کئے۔ سلطان ابن سعود نے وفد کے نقطہ ء نگاہ کو سننے کے بعد تسلیم کر لیا کہ حجاج پر ٹیکس لگانا ناجائز ہے۔ یہ اس وفد کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مصر، عراق، شام اور انڈونیشیا کے مسلمان مسلم لیگ اور پاکستان کے موقف سے متعارف ہوگئے اور سلطان ابن سعود نے 400 روپے سے زیادہ کا حج ٹیکس بھی ختم کر دیا۔آپ نے 1940ء میں اقبال پارک لاہور کے اجلاس میں شرکت اور قرارداد پاکستان کے حق میں قائداعظمؒ کی زیر صدارت تاریخی تقریر فرمائی۔ قیام پاکستان کی تحریک کو تیز تر کرنے کے لئے 1946ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس (بنارس) منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس قیام پاکستان کے سلسلے میں سنگ میل ثابت ہوئی۔ تحریک پاکستان کی راہ ہموار کرنے کے لئے اکابر علمائے اہل سنت کی جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، علامہ بدایونی ؒ اس کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
1945ء میں لیاقت علی خان نے (جو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے) مولانا بدایونی کو حیدرآباد دکن بھیجا،تاکہ وہ کسی طرح نظام دکن میر عثمان علی خان اور قائداعظمؒ کی ملاقات کے لئے راہ ہموار کریں، کیونکہ ان دونوں کے اختلافات ملت اسلامیہ کی جدوجہد پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ نظام دکن مولانا بدایونی ؒ کی علمیت اور خطابت کے بڑے مداح تھے، اس لئے مولانا کی نظام دکن سے تاریخی بحث ہوئی۔ کافی بحث و مباحثے کے بعد جب مولانا وہاں سے رخصت ہوئے تو نظام دکن قائداعظمؒ سے ملاقات کے لئے راضی ہو چکے تھے۔ 30 اگست 1941ء کو لدھیانہ میں ’’پاکستان‘‘ کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی صدارت مولانا بدایونی نے کی۔ اس موقع پر مولانا نے قیام پاکستان کے حق میں مدلل خطبہ دیا، جو بعد میں نظامی پریس بدایونی سے کتابی شکل میں شائع ہو کر مسلم لیگ کی تمام شاخوں کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔
1946ء میں کوئٹہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں سردار غلام محمد ترین اور قاضی عیسیٰ مرحوم کے علاوہ مولانا بدایونی نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کی صدارت نواب زادہ لیاقت علی خان نے کی۔ مولانا بدایونی نے اپنی زندگی قومی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی، وہ اپنے خاندان اور آرام و آسائش سے بے پروا ہو کر ایک عظیم مجاہد کی طرح ایثار و قربانی کو اپنا شعار سمجھتے تھے۔وہ دنوں نہیں، بلکہ مہینوں اہل خانہ سے دور رہ کر مسلم لیگ کے لئے سرگرم عمل رہے۔ مولانا مرحوم عید کی تقریبات بھی اپنے گھر پر نہیں منا سکتے تھے، کیونکہ انہیں صوبہ بنگال کے مسلمانوں کی فرمائش پر ابو الکلام آزاد کی جگہ عیدگاہ کلکتہ میں نماز عیدالفطر پڑھانے کا فریضہ انجام دینا ہوتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کی دعوت پر مولانا بدایونی آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس میں شرکت کے لئے کراچی آئے ،پھر قائدین کے اصرار پر یہیں کے ہو رہے۔ وہ ملی استحکام اور اتحاد عالم اسلامی جیسے عظیم مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی زندگی کے آخری سانس تک مصروف رہے۔ مولانا بدایونی جس روز سے پاکستان آئے، اسی روز سے انہوں نے مہاجرین کی خدمت کا بیڑہ اٹھا لیا۔ کراچی کے ڈپٹی کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا نے مہاجرین کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی، جس کا صدر مولانا بدایونی کو مقرر کیا گیا۔
نسب
عبد الحامد قادری بدایونی بن حکیم عبد القیوم قادری بن حکیم مرید جیلانی بن محی الدین قادری عثمانی بن شاہ فضل رسول بدایونی مصنف سیف اللہ المسلول یہ عبد الماجد بدایونی کے بھائی ہیں
ولادت
تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما شاہ محمد عبد الحامد قادری بد ایونی 1318ھ/1900ءء میں دہلی میں اپنے ننھیال کے ہاں پیدا ہوئے محمد ذو الفقار حق( 1318ھ) تاریخی نام تجویز ہوا [2]ابھی آپ کی عمر بیس دن ہی کی تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہو گیا ۔
تعلیم و تربیت
عبد الحامد بد ایونی اور ان کے بڑے بھائی عبد الماجد بد ایونی کی تعلیم و تربیت کا تمام تر انتظام ان کی والدہ ماجد ہ ( سیدی بہاؤ الدین دہلوی کی ہمشیرہ ) نے کیا۔ ابتدا اپنے آبائی مدرسہ، مدرسہ قادریہ میں تعلیم حاصل کی، آخری دو سال الٰہیات کی تکمیل اور فن قرأ ت کی تحصیل کے لیے مدرسئہ الٰہیہ، کانپور میں رہے۔ آپ کے اساتذہ میں آپ کے مرشد بر حق مولانا شاہ عبد المقتدر بد ایونی کے علاوہ مولانا محب احمد قادری، مولانا حافظ بخش بد ایونی، مولانا قدری بخش بد ایونی مولانا مفتی محمد ابراہیم، مولانا مشتاق احمد کانپوری، مولانا واحد حسین اور مولانا عبد السلام فلسفی کے نام ملتے ہیں ۔
تحریک پاکستان
23مارچ 1940ء کو منٹو پارک، لاہور کے تاریخی اجلاس میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی تو عبد الحامد بد ایونی مسلم لیگ کے ان زعماء میں شامل تھے جنھوں نے قرارداد کی تائید میں تقریر کی 30 اگست 1941 ؁ء کو لدھیانہ میں آپ کی صدارت میں پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی، اس کا نفرنس میں آپ نے پاکستان کے حق میں بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جو بعد میں نظامی پریس، بد ایوں سے چھپ کر ملک بھر میں تقسیم ہوا۔ 1945ء میں قائد اعظم اور میر عثمان علی خاں فرمانروائے دکن کے باہمی اختلافات نازک صورت اختیار کر گئے تو قائد ملت خان لیاقت علی خان نے مولاناعبدالحامد بد ایونی کو منتخب کیا تاکہ اختلافات ختم کر انے کے لیے دونوں راہنماؤں کی ملاقات کا راستہ ہموار کریں، والئی دکن، مولانا بد ایونی کی بڑی قدر د منزلت کرتے تھے اور انھیں دینی جلسوں میں تقریر کے لیے مد عو کیا کرتے تھے مولانا فرنر واء دکن سے ملاقات کی اور طویل گفتگو کے بعد انھیں قائد اعظم سے ملاقات کرنے پر آمادہ کیا قیام پاکستان کے بعد آپ آل انڈیا مسلم یگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی آئے تو علما پاکستان کے اصرار پر مستقل طور پر یہیں قیام پزیر ہو گئے 
جمیعت العلمائے پاکستان
جمعیت العلماء، پاکستان کے قیام اور استحکام کے لیے ابتدا ہی سے آپ نے اپنی کوششیں وقف کر رکھی تھیں، علامہ ابو الحسنات قادری کے وصال کے بعد جمعیت کے مرکزی صدر بنے اور اپنی شبانہ روز محنت سے جمعیت کو چار چاند لگا دیے، مولانا ان علما میں شامل تھے جنھوں نے 22 نکات پر مشتمل دستوری خاکہ مرتب کیا تھا، 1953ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو اس میں آپ نے کھل کر حصہ لیا اور انتہائی علالت کے با وجود فر وری 1953ء میں اسلامی مشارقی کونسل کے رکن نامزد ہوئے، اس ضمن میں انھوں نے کونسل کو اہم سفارشات پیش کیں، 1965ء میں پاک بھارت جنگ چھڑی تو آپ نے علما اہل سنت کی ایک جماعت کے ساتھ ملک بھر کا دورہ کیا اور تین لاکھ روپے کے کپڑے اور دیگر ضروری سازد سامان مہاجرین کشمیر میں تقسیم کیا ۔
تعلیمات اسلام
عبد الحامد بد ایونی نے قدیم اور جدیدی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا کی اہم زبانوں کی تعلیم کے لیے کئی لاکھ روپے صرف کر کے منگھو پیر روڈ، کراچی میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ کے نام سے عظیم درس گاہ قائم کی، آپ کی اپیل پر صدر مملکت اور اسلامی مملاک کے سر براہوں نے دل کھول کر امداد کی، یہ ادارہ آج بھی علوم دینیہ کی خدمت میں مصروف ہے۔ آپ چین، روس، مصر، ترکی، تیونس، نائجیریا، کویت، عرا، ایران اور حجاز مقدس گئے مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو واضح کیا۔ آپ نے بائیس مرتبہ حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل کی
تصنیفات
آپ نے قابل قدر تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑ ا، چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
  • فلسفہ عبادت اسلامی،تصحیح العقائد،نظام عمل،کتاب و سنت غیروں کی نظر میں،اسلام کا زراعتی نظام،اسلام کامعاشی نظام،مشرقی کا ماضی و حال،انتخابات کے ضروری پہلو۔الجواب المشکور (عربی)،اسلامک پیرئرز (انگریزی)،حرمت سود،مشیر الحجاج،ہندو حکمرانی کا ہولناک تجربہ(1939)
وفات
15 جمادی الاولیٰ، 1390ھ /20 جولائی1970ء کو شاہ محمد عبد الحامد بد ایونی قادری کا جناح ہسپتال، کراچی میں انتقال ہوا۔

خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ

خواجہ محمدقمرالدین سیالوی چشتی نظامیسلسلہ چشتیہ نظامیہ سیال شریف کے سجادہ نشین رہے ہیں۔
نام ونسب
نام خواجہ محمدقمرالدین سیالوی۔ لقب:شیخ الاسلام والمسلمین۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے خواجہ قمر الدین سیالوی، بن خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی بن خواجہ محمد الدین سیالوی، بن خواجہ محمدشمس الدین سیالوی
پیدائش
قمرالدین سیالوی کی ولادتِ 15جمادی الاول،1324ھ، بمطابق1904ءکو خواجہ محمد ضیاءالدین سیالوی کےگھرسیال شریف ضلع سرگودھا پنجاب میں ہوئی۔
حصول علم
ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے داداخواجہ محمدالدین سیالوی (ثانی لاثانی) کے زیرِ سایہ ہوئی۔ابھی آپ کی عمر مبارک 4سال کی تھی تودادا کا انتقال ہو گیا۔ جب آپ چار سال، چارماہ، دس دن کے ہوئے تو قصبہ پوہلا کے معروف حافظِ قرآن، حافظ کریم بخش کی خدمت میں حفظِ قرآنِ مجید کے لیے بٹھادیا گیا۔ اپنی خانقاہ کے مدرسہ ضیاء شمس الاسلام کے اساتذہ اور والد ماجد سے اکثر درسی کتب کا درس لینے کے بعد1346ھ میں مدرسہ عثمانیہ دار الخیر اجمیر پہنچے اور جامع المنقولِ والمعقول معین الدین اجمیری سے شرفِ تلمذ اختیار کیا،  اسی سن میں چند ماہ کے بعد آپ کے والد ماجد نے مولانا اجمیری کو سیال شریف آنے کی دعوت دی، تو آپ بھی اُن کے ساتھ وطن آ گئے اور پورے انہماک کے ساتھ اُن سے کسب علم میں مشغول ہو گئے اور1351ھ، بمطابق1932ءمیں تکمیل ِدرسیات کر کے سندِفراغت حاصل کی۔1356ھ، بمطابق1938ء میں بموقع حج وزیارت علما حرمین شریفین سے بھی سندیں حاصل کیں۔ مدینہ منورہ میں اندلس کے قاضی شیخ ابوبکر النبائی سے سند حدیث حاصل کی اور مکہ مکرمہ میں مدرسہ صولتیہ کے شیخ الحدیث علامہ عمرو ممدان المکی سے سند حدیث حاصل کی۔
مجاہدانہ زندگی
آپ کے والد نے مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے کے لیے گھڑ سواری، نشانہ بازی اورشمشیر زنی کی بھی اچھی تربیت دی۔ اور جفا کش زندگی کی عادت ڈالی۔
بیعت و خلافت
والد خواجہ محمد ضیاءالدین سیالوی سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔ اور اپنے والد کی وفات پر سیال شریف کی مسند سجادگی کو رونق بخشی اور جانشینی کا حق ادا کیا۔
القابات و خطابات
مجسمۂ روحانیت، آفتابِ شریعت، ماہتابِ طریقت، اقلیمِ فقر کے تاجدار، عاشقِ نبی مختار، عارف باللہ، مردِحقیقت آگاہ، وارث علوم پیر سیال لجپال، شیخ الاسلام و المسلمین کے خطابات سے نوازے گئے جبکہ انگریز نے انھیں ہز ہولی نیس(تقدس ماب) جو اس زمانے میں بڑا مذہبی اعزاز تھا یہ یہ خط ان کے پاس پہنچا تو اسے پھاڑ دیا اور فرمایا حضورﷺ کی غلامی اور پیر پٹھان ( خواجہ سلمان تونسوی )کی نسبت سے بڑھ کر مجھے کسی اعزاز کی ضرورت نہیں۔
علمی مقام
محمد قمر الدین سیالوی نے ہزاروں گم کردہ را ہوں کو راہ ِہدایت سے ہمکنار فرمایا۔ آپ سیدھے سادھے مسلمانوں کے ایمان اور خوش عقیدگی کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ فرقہائے باطلہ کی تردید میں سینہ سپر رہے۔ شیخ الاسلام عربی فارسی اردوسرائیکی اور پنجابی زبانوں میں تسلسل کے ساتھ گفتگو فرمالیا کرتے تھے۔ عربی میں کمال درجے کا شغف رکھنے کے علاوہ آپ اس زبان میں بلا تکلف مضمون لکھنے کی بھی مہارت تامہ حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس غضب کا حافظہ عطا کیا تھا کہ سالوں پہلے پڑھی ہوئی کتابوں کے مضامین آپ کے پیش نظر رہتے تھے۔ آپ کو تقابلِ ادیان پر بھی کامل دسترس حاصل تھی۔ آپ نے اپنے زور علم اور زور بیان سے مسیحیوں کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کیے جس میں بڑے بڑے مسیحی پادرویوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
سیاسی خدمات
آپ حُسن اخلاق کے پیکر اور اپنے بزرگوں کے سچے جانشین تھے۔ علماءومشائخ کے طبقہ میں یکساں مقبول تھے، پاکستان کے مسلمانوں کی عظیم دینی و سیاسی تنظیم جمعیت علماء پاکستان کے 1970ءکے شدید بُحران اور اختلاف کی فضاء میں باتفاق رائے صدر منتخب کیے گئے۔ آپ کی قیادت میں جمعیت علما پاکستان نے بہترین کا رہائے نمایاں سر انجام دیے تھے۔ خواجہ سیالوی نے مہاجرین کی آباد کاری میں بھر پور حصہ لیا اور حکومت کا ہاتھ ہٹانے بٹانے کے علاوہ اپنے ذاتی فنڈ سے بے شمار مہاجروں کے گھروں کو آباد گیا۔1965ء کی جنگ کے موقع پر آپ نے اپنی تمام جمع پونجی دفاعی فنڈ میں جمع کرادی اور اپنے مریدین اور معتقدین کو بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا حکم دیا۔ آپ کے ایثار و قربانی کا عالم یہ تھا کہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے زیورات بھی ملک پر قربان کر دیے اور اپنے احباب کوقنوت نازلہ پڑھنے کا حکم دیا۔ آپ بیحدخودداراورغیورتھے۔ کبھی ذات مفادات آپ کی رکاوٹ نہ بن سکے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمٰن نے بتایا کہ قمر الدین سیالوی نے اسلامی نظریات کونسل کے لیے ہمیشہ تنخواہ کے بغیر کام کیا ہے۔ حتیٰ کہ سفر کے اخراجات کے لیے بھی آپ نے کبھی حکومت سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔
تالیفات  مذہب شیعہ،بلاغ المبین،تحقیق فی الطلاق،تنویر الابصار تقبیل المزار،صلوہ العصر،تبلیغ القوم فی اتمام الصوم
وفات
آپ17 رمضان المبارک1401ھ، بمطابق20جولائی1981ء کواپنے خالق حقیق سے جاملے۔ سیال شریف ضلع سرگودھا میں آپ کا مزار مرجع خاص و عام ہے۔

غزالی زماں، رازی دوراں، حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ

غزالی زماں، رازی دوراں، حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی بیک وقت شیخ التفسیر، شیخ الحدیث، شیخ الفقہ، عظیم ترین محقق، مدقق اور روحانی پیشوا تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب سیدنا امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے منسلک ہے۔
ولادت
آپ 1913ء کو شہر امروھہ میں حضرت سید محمد مختار کاظمی  کے ہاں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت
تعلیم و تربیت کی تکمیل برادرِ معظم حضرت علامہ سید محمد خلیل کا ظمی محدث امروہی  سے کی اور سولہ سال کی عمر میں سند فراغت حاصل کی۔ انہی کے دست حق پر سلسلہ چشتیہ صابر یہ میں بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت حاصل کی۔
تدریس
آپ نے تدریس کا آغاز جامعہ نعمانیہ لاہور سے کیا، بعد ازاں 1931ء میں امروھہ مدرسہ محمد یہ میں چار سال تدریس فرمائی۔ 1935ء کے اوائل میں ملتان تشریف لائے۔ مسجد حافظ فتح شیر بیرون لوہاری دروازہ میں درس قرآن و حدیث کاآغاز کیا، جو 18 سال تک جاری رہا۔ 1944ء میں ملتان کے وسط میں زمین خرید کر مدرسہ انوار العلوم قائم کیا۔ اب تک اس مدرسہ سے سیکڑوں طلبہ علوم اسلامیہ کی تکمیل کرکے ملک اور بیرون ملک دین متین کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔
تحریک پاکستان میں خدمات
حضرت علامہ کاظمی ؒ نے برصغیر کی تقسیم کےلئے علیحدہ مملکت کے قیام کےلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں ۔قیام پاکستان کی توثیق کےلئے بنارس سنی کانفرنس میں بھرپور طریقے سے شرکت کی ۔
تنظیمی خدمات
1948ء میں آپ نے علماء و مشائخ کا عظیم الشان کنونش منعقد کر کے جمعیت علماءپاکستان کی بنیاد ڈالی۔ غازیءِ کشمیر مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری کو صدر اور علامہ کا ظمی کو ناظم اعلیٰ مقررکیا گیا۔
1953ء میں تحریک ختم نبوت میں ولولہ انگیز کر دار ادا کیا۔ مجلس صدارت کے فرائض آپ نے سر انجام دیئے۔ بالآ خر مرزائیوں کا غیر مسلم اقلیت قرار پانا اسی تحریک کا نتیجہ ہے۔
1976ء میں تحریک نظام مصطفی میں آپ کا کردار نمایاں ہے۔
1963ٗء میں محکمہ اوقاف میں جامعہ اسلامیہ کے شعبہ حدیث کے لئے اس شعبہ کے سر براہ کی حیثیت سے کام کیا۔
1978ء میں ملتان سنی کانفرنس میں جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ دینی فقہی امور کی بجا آوری کیلئے ایک غیر سیاسی تنظیم جماعت اہلسنت کا قیام عمل میں لایا گیا، حضرت علامہ کا ظمی کو صدر منتخب کیا گیا۔ مدارس درسِ نظامی کی اصلاح و تنظیم کے لئے آپ نے تنظیم المدارس (اہل سنت) پاکستان کی بنیاد رکھی جس کے آپ صدر تھے۔
وصال
حضرت علامہ سیداحمد سعید شاہ صاحب کاظمی نے 73 سال کی عمر میں 25 رمضان المبارک 1406ھ کو روزہ افطار کرنے کے بعد داعئ اجل کو لبیک کہا اور مالک حقیقی سے جاملے ۔ ملتان کے وسیع اسپورٹس گراؤنڈ میں نمازجنازہ ہوئی جس میں لاکھوں افرادنے شرکت کی مرکزی عیدگاہ ملتان میں مدفون ہوئے۔ آپ کا مزارپرنور زائرین کی آماجگاہ ہے۔
تصانیف
آپ کی تصانیف میں سے مقالات کاظمی کے نام سے تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ البیان ترجمہ قرآن مجید، تسکین الخواطر فی مسئلہ الحاضر والناظر، تسبیح الرحمن عن الکذب و النقصان، درودِتاج پر اعتراضات کے جوابات، التبیان تفسیر القرآن مشہور و عام کتابیں ہیں اور یہ شائع ہوچکی ہیں۔

علامہ محمود احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ

علامہ سید محمود احمد رضوی لاہور کے اہلسنت کے ماہرِ علوم عقلیہ و نقلیہ کے علما ئ میں شمار ہوتے ہیں ،سیّد محمود احمد رضوی بن مفتی اعظم پاکستان ابو البرکات سیّد احمد بن امام المحدّثین علامہ ابو محمد سیّد دیدار علی شاہ بن سیّد نجف علی، 1343ھ/1924ء  میں آگرہ (ہند) میں پیدا ہوئے۔
سلسلہ نسب
آپ کا سلسلۂ نسب امام موسیٰ کاظم رضا تک پہنچتا ہے۔ آپ کے آبا و اجداد مشہد سے ہندوستان آئے اور اَلور میں قیام پزیر ہو گئے۔ آپ کا خاندان علم و حکمت اور روحانیّت کا سرچشمہ ہے۔غازی کشمیر قائدِ تحریکِ ختمِ نبوت اور صدر جمعیت علما پاکستان مولانا سیّد ابو الحسنات قادری مرکزی دار العلوم حزب الاحناف
تعلیم و تربیت
آپ کے جدِّ امجد نے دار العلوم حزب الاحناف قائم فرمایا تھا۔ اس دار العلوم سے بڑی بڑی نابغۂ روزگار شخصیتیں فراغت حاصل کر کے میدانِ عمل میں آئیں علّامہ رضوی نے بھی تمام علوم کی تکمیل اور دورۂ حدیث اسی دار العلوم سے کیا۔ آپ کے اساتذہ میں استاذ العلماء علّامہ مولانا عطا محمد بندیالوی، شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مہر الدین جماعتی اور رئیس المنا طقہ حضرت مولانا محمد دین بدھوی جیسے اکابر کے نام آتے ہیں۔علامہ سیّد محمود احمد رضوی نہ صرف قابل مدرس اور فاضل مقرر ہیں، بلکہ میدانِ تحریر کے بھی شہسوار ہیں سیاسی اور دیگر ملکی دہلی مسائل پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ آپ کی صواب رائے قابلِ تحسین و داد ہوتی ہے۔ دار العلوم حزب الاحناف میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے دار العلوم کے جملہ انتظامی امور کی نگرانی اور مختلف مساجد اہل سنّت میں خطبۂ جمعہ کے علاوہ ملک کے اطراف و اکناف میں تبلیغی و اصلاحی اجلاسوں سے بھی خطاب فرماتے ہیں۔ ملکی و ملّی مسائل پر آپ کے علمی و تحقیقی مضامین رسائل و جرائد میں چھپتے ہیں جو قوم کے لیے خضر راہ ثابت ہوتے ہیں۔
تحریک ختم نبوت
تحریکِ ختم نبوّت 1953ء میں آپ کے غمِ مکرم مولانا سیّد ابو الحسنات قادری تحریک کے قائد تھے۔ علامہ رضوی نے علامہ مفتی محمد حسین نعیمی کے تعاون سے اپنی ذاتی مشین پر پمفلٹ چھاپ کر فوج اور پولیس کے نو جوانوں کو تحریک کی افادیّت اور اہمیت سے آگاہ کیا۔تحریکِ ختم نبوت 1974ء میں آپ کو تمام مکاتبِ فکر کے اتحاد سے وجود میں آنے والی مجلس عمل تحفظِ ختم نبوت کا مرکزی ناظمِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ آپ کی قیادت میں ملک بھر میں ملّتِ اسلامیہ پاکستان نے تحفظِ ختم نبوت کے لیے جدو جہد کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور بالآخر7ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی پاکستان نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔
سیاسی وابستگی
سیاسی طور پرجمعیت علماء پاکستان سے متعلق رہے ہیں۔ اگرچہ عملی طور پر میدانِ سیاست میں کم رہے، لیکن آپ کی تمام تر ہمدردیاں اور تعاون جمعیت کے ساتھ ہے۔ آپ جمعیّت کے مرکزی ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ 1971ءکے انتخابات میں آپ نے جمعیت کے ٹکٹ پر حلقہ نمبر1لاہور سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ 28؍ جنوری 1979ء کو آپ مختلف مکاتب فکر کی مشترکہ تنظیم ’’مجلس تحفظ حقوقِ عالم اسلامی‘‘کے صدر منتخب ہوئے۔
چئیر مین رؤیت ہلال کمیٹی
رمضان المبارک 1398ھ میں آپ کو رویتِ ہلال کمیٹی کا چیئر مین منتخب کیا گیا۔ اس سے قبل اہل سنّت کے ممتاز عالمِ دین مولانا شاہ عارف اللہ قادری یہ فرائض سر انجام دیتے تھے۔
تصنیفات
آپ کو میدانِ تحریر میں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ مختلف رسائل و جرائد میں علمی و تحقیقی مضامین کے علاوہ آپ کی زیرِ ادارت ماہنامہ ’’رضوان‘‘کے نام سے ایک رسالہ جاری ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت علمی و تحقیقی مضامین کے علاوہ فقہی مسائل بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے بہت سی کتب تصنیف فرمائیں، جو یہ ہیں۔
فیوض الباری (شرح صحیح بخاری) 7 جلد۔ذکرِ اخیار،برکاتِ شریعت،جواہر پارے حصہ اول، دوم،جامع الصّفات، روحِ ایمان،رزقِ حلال،مسائلِ نماز،المباح و المحظور،مذاکرہ علمی حصّہ اوّل، دوم، سوم،دینِ مصطفےٰ،شانِ مصطفےٰ، خصائصِ مصطفےٰ،معراج النبی،بصیرت،اسلامی تقریبات،شانِ صحابہ،حدیثِ قرطاس،مکالمہ رضوی و گوجروی
وفات   14اکتوبر1999ء کو لاہور میں وفات پاگئے دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں دفن ہوئے۔

 امیر ملت پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ

مشہور عاشقِ رسول بُزرگ، امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی مُحدِّث علی پوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1257ھ بمطابق1841ء کو علی پور سیّداں (ضلع  نارووال، پنجاب، پاکستان)میں  ہوئی
سید جماعت علی شاہمحدث علی پوری امیر ملت کے نام سے شہرت رکھتے ہیں
 ولادت
سید جماعت علی شاہ 1834ءمیں علی پورسیداںضلع سیالکوٹ پنجاب میں پیدا ہوئے ۔
(ایک روایت 4/صفر 1320ھ بمطابق13 مئی 1902ءہے
نسب
امیر ملت کے والد کا نام حضرت پیر سید کریم شاہ تھا جو خود بھی عارف باللہ اور ولی کامل تھے۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔آپ کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سےحضرت علی المرتضیٰ تک پہنچتا ہے اور آپ کا شجرہ نسب ایک سو اٹھارہ واسطوں سےحضرت آدم تک پہنچتا ہے۔
تعلیم و تربیت
امیر ملت نے سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ آپ کا تعلق مسلک اہلسنت و جماعت سے تھا علوم دینیہ مولانا غلام قادر بھیروی، مولانا فیض الحسن سہارنپوری، مولانا قاری عبد الرحمن محدث پانی پتی اور مولانا احمد علی محدث سہارنپوری سے حاصل کیے۔ سندحدیث علما پاک و ہند کے علاوہ علماء عرب سے بھی حاصل کی۔ ایک بار آپ نے بطورِ تحدیثِ نعمت فرمایا کہ مجھے 10 ہزار احادیث مع اسناد کے یاد ہیں۔
علم باطن
علوم ظاہری کے بعد آپ فیوض باطنی کی طرف متوجہ ہوئے تو امام کاملین قطب زماں بابا جی فقیر محمد چوراہی کےدستِ حق پرست پرسلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں داخل ہو کر اسی وقت خرقۂ خلافت سے نوازے گئے۔ اس پر مریدین نے اعتراض کیا تو باوا جی نے فرمایا کہ جماعت علی تو چراغ بھی ساتھ لایا تھا، تیل بتی اور دیا سلائی بھی اس کے پاس موجود تھی، میں نے تو صرف اس کو روشن کیا ہے۔
دینی خدمات
امیر ملت نے پچاس سے زیادہ حج کیے۔ سینکڑوں مسجدیں بنوائیں اور بے شمار دینی مدارس قائم کیے۔ سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔شہید گنج کی تحریک کے دنوں میں آپ نے ہندوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور برہمنوں کے پراپیگنڈے کا سدباب کرنے کے لیے مبلغین کی ایک جماعت تیار کی جس نے قریہ قریہ اور شہر بہ شہر گھوم کرتبلیغ اسلام کی۔1935ءمیں مسجد شہید گنج کے سلسلے میں راولپنڈی شہر میں عظیم الشان جلسے کا انعقاد ہوا، جس میں  پیرصاحب کو امیر ملت کا لقب دیا گیا۔ تحریک پاکستان کے لیے آپ کی خدمات بے مثال ہیں۔آل انڈیا سنی کانفرنس کے سرپرست تھے۔ 1885ء میں لاہور میں انجمن نعمانیہ کی بنیاد رکھی اور1901ءمیں انجمن خدام الصوفیہ کی بنیاد رکھی ۔
علامہ اقبال اور امیر ملت
علامہ اقبال کو امیر ملت سے گہری عقیدت تھی۔ ایک بار امیر ملت کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہو رہا تھا۔  جلسہ گاہ میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ علامہ اقبال ذرا دیر میں آئے اور امیر ملت کے قدموں میں بیٹھ کر کہا: ”اولیاء اللہ کے قدموں میں جگہ پانا بڑے فخر کی بات ہے۔“ یہ سن کر امیر ملت نے فرمایا: ”جس کے قدموں میں اقبال“ آ جائے اس کے فخر کا کیا کہنا۔“
علامہ اقبال کے آخری ایام میں ایک محفل کے دوران میں امیر ملت نے کہا: ”اقبال! آپ کا ایک شعر ہمیں بے حد پسند ہے۔“ پھر یہ شعر پڑھا:
؎ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
علامہ اقبال کی خوشی دیدنی تھی چنانچہ آپ نے کہا: ”ولی اللہ کی زبان سے ادا ہونے والا میرا یہ شعر میری نجات کے لیے کافی ہے۔“
عاشق مدینہ
عشقِ مدینہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ زبردست عاشقِ مدینہ تھے،مدینے کی ہر شے سے محبّت رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدینۂ منورہ  میں تھے کہ اتفاقاً آپ کےکسی مُرید نے مدینۂ منورہ کے ایک کتّے کو (مٹی کا)ڈھیلا مارا جس کی وجہ سے وہ کتّا چیخے لگا،جب آپ کو پتا چلا توآپ بے چین ہوگئے اور اپنے مُریدوں کوحکم دیا کہ فوراً اُس کتّے کو آپ کے پاس لائیں ، جب وہ کتّا لایا گیا تو آپ اُٹھے اور ر وتے ہوئے اُس سے  کہنے لگے: اے دیارِ حبیب کے رہنے والے! لِلّٰہ میرے مُرید کی اِس لغزش کو مُعاف کردے۔ پھر بُھنا ہوا گوشت اور دودھ منگوایا اور اُس کتّے کو  کھلایا، پلایا۔ 
وفات
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال 26 ذوالقعدۃ الحرام 1370ھ بمطابق 30اگست 1951ء کو ہوا۔ آپ کا مزار علی پور سیّداں (ضلع  نارووال، پنجاب، پاکستان) میں مرجعِ خلائق ہے۔

مفتی اعظم استاذ الاکابر ابو البرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ

مفتی اعظم استاذ الاکابر ابو البرکات سید احمد قادری، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دارُالعلوم حِزبُ الاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔
شیخ الحدیث علامہ ابو البرکات سید احمد قادری ؒ 1886ءکو بھارت کے شہرالور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سید دیدار علی شاہ کے قائم کردہ مدرستہ قوت الاسلام (الور ) میں حاصل کی اورصرف ونحو ، اصول ، منطق اور فلسفہ کی کتابیں پڑھیں ۔پھر حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے مدرسہ اہل سنت مراد آباد میں داخلہ لیا اور درس نظامیہ کی آخری موقوف علیہ کتابیں پڑھیں اور مناظرہ توقیت فلکیات اور فلسفہ کے ساتھ ساتھ فن طب میں بھی مہارت حاصل کی۔
جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے والد سید دیدار علی شاہ سے دور ہ حدیث پڑھا اور احادیث کی خصوصی ا سناد وتمام سلاسل اولیا ءکے معمولات وظائف کی اجازت وخلافت حاصل کی ۔ 1915ءمیں بریلی شریف حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ اعلی حضرت الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی کے زیر تربیت رہے – اعلی حضرت نے تمام علوم عالیہ اسلامیہ قرآن وحدیث وفقہ کی خصوصی اسناد اپنے دست خاص سے لکھ کر عنایت فرمائیں۔ 1920ءکے آغاز میں جب حضرت سید دیدار علی شاہ مستقل سکونت کے ارادہ تشریف لائے تو آپ کی جگہ حضرت ابو البراکات جامع مسجد آگرہ کے خطیب ومفتی مقرر ہوئے ۔1933ءمیں جامع مسجد مزار حضرت داتا گنج بخش کی خطابت کے لئے آپ لاہور تشریف لائے۔ اسی دوران میں دارالعلوم حزب الاحناف کی ابتدا ہوئی تو مولانا ابوالبرکا ت کو اس مدرسے میں مدرس مقرر کیا گیا۔ آپ کے علم وفضل کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دوسرے شہروں سے طالبان علوم دینیہ لاہور پہنچنے لگے اور آپ کے علم وفضل سے استفادہ کرنے لگے ۔ تحریک پاکستان کی حمایت ونصرت کا مرحلہ آیا تو آپ نے دو قومی نظریہ اور قرار داد پاکستان کی بھر پور حمایت کی ۔ کانگرسی علماءکی تردید اور نظریہ پاکستان کی تائید کے لئے اپنے دارالعلوم کے سالانہ جلسوں کو وقف کر دیا ۔ ۳۰اپریل۱۹۴۶ءآل انڈیا سنی کانفرنس کا بنارس میں انعقاد ہوا اور پاکستان کی حمایت میں پر زور قرار داد منظور کی گئی اس قرار داد پر مولانا ابوالبرکات کے علاوہ تقریباًدو ہزار قرار علماءاور مشائخ نے دستخط کئے ۔ قیام پاکستان کے بعد نظام مصطفی کے قیام ونفاذاور اہل سنت کی تعمیر وتنظیم کے لئے ہر ممکن سعی فرمائی ۔
30 اپریل، 1946ء آل انڈیا سنی کانفرنس منعقدہ بنارس میں ہزاروں علما اور مشائخ کے ساتھ انھوں نے پاکستان کے قیام کے حق میں دستخط کیے۔ 1949ء میں جب پہلی دستور ساز اسمبلی کے ارکان تھے۔ نظام مصطفٰی کے قیام و نفاذ کے لیے بھی سر گرم رہے۔
۱۹۴۹ءمیں جب پہلی دستور ساز اسمبلی قائم ہوئی تو آپ نے قرار داد مقاصد کی تربیت میں حصہ لیا اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ وقیام کے لئے ہر ممکن کوشش کی ۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جب جھنگ سے لاہور تشریف لائے تو اکثرو بیشتر آپ کے دروس میں حاضر ہوتے۔
شریعت کی پابندی اور سنت رسول اللہﷺکی پیروی ان کی طبیعت ثانیہ تھی ۔ ہر بات اور ہر کام میں احکام شریعت کا خیال رکھتے تھے ۔آپ نے ۱۹۷۸ءمیں وفات پائی اور مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف گنج بخش روڈ نزد مزار حضرت داتا گنج بخش کے احاطے میں آسود خاک ہوئے ۔ حضرت ابوالبرکات کا شمار ان معدودے چند علماءکرام میں ہوتا ہے جن کی علمی فضیلت ‘ تقوی وطہارت اور عظمت کردار کو اپنے پرائے سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ آسمان علم وحکمت کے مہردرخشاں تھے جس کی ضیاءپاشیوں سے ہزار طالبان رشد وہدایت فیض یاب ہوئے ۔ آپ اپنے ان اوصاف حمیدہ کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے –

علامہ جمیل احمد نعیمی ضیائی رحمۃ اللہ علیہ(1936ء تا 2020ء)

علامہ جمیل احمد نعیمی غیر منقسم ہندوستان میں انبالہ چھائونی کے علاقے میں 1936ء میں پیدا ہوئے،قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کر کے لاہور آئے اور ابتدائی سال شاہ عالم لاہور میں گزارے، پھر 1950ء میں آپ کے خاندان نے کراچی کی طرف ہجرت کی اور پھر تادمِ آخریں یہیں مقیم رہے۔ سکول کی ابتدائی تعلیم کے بعد 1952ء میں دارالعلوم مخزنِ عربیہ بحر العلوم آرام باغ کراچی میں داخل ہوئے اور 1960ء میں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور مسندِ فضیلت پر فائز ہوئے۔ آپ کے اساتذہ کرام میں سب سے نمایاں نام تاج العلماء علامہ مفتی محمد عمر نعیمی رحمہُ اللہ تعالیٰ کا تھا، جو صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہُ اللہ تعالیٰ کے شاگردِ خاص تھے، ان سے اکتسابِ فیض کیا، پھر جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں مدرس ومفتی کے منصب پر فائز رہے اور 1950ء میں ہجرت کر کے کراچی چلے آئے۔ یہاں انہوں نے آرام باغ میں اپنا دینی ادارہ ”مخزنِ عربیہ بحرالعلوم ‘‘ قائم کیا، جو ان کے وصال کے بعد زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ علامہ جمیل احمد نعیمی نے کچھ عرصہ اس ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دیے اور تاحیات وہ سبز مسجد صرافہ بازار کراچی میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1973ء میں ہم نے ”دارالعلوم نعیمیہ ٹرسٹ‘‘قائم کیا، حضرت علامہ ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ اس کے منیجنگ ٹرسٹی اور راقم الحروف پہلے جنرل سیکرٹری اور بعد میں 1993ء میں مفتی صاحب رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ کے وصال کے بعد منیجنگ ٹرسٹی مقرر ہوئے،نیز بالترتیب علامہ جمیل احمد نعیمی، علامہ مفتی محمد اطہر نعیمی، مولانا محمد اقبال حسین نعیمی، حافظ محمد ازہر نعیمی اور مولانا سراج احمد نعیمی رَحِمَہُمُ اللہ تعالیٰ ٹرسٹی مقرر ہوئے۔ علامہ جمیل احمد نعیمی ناظمِ تعلیمات مقرر ہوئے،تعلیمی نظم بندی کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں بالخصوص شعبۂ حدیث میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے؛ تاہم جب آپ کی صحت زوال پذیر ہوئی تو آپ نے تدریس کا سلسلہ موقوف فرمادیا، البتہ باقاعدگی سے تشریف لاتے، لائبریری میں کتب کا مطالعہ کرتے، اپنے وقت کے مشاہیر سے خط وکتابت کرتے،اپنے احباب اور محبین سے ملاقاتیں فرماتے اورلائبریری کی نگرانی بھی فرماتے۔ تحریک نظامِ مصطفی میں جیل بھی گئے۔
علامہ جمیل احمد نعیمی کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قوتِ حافظہ سے نوازا تھا، اشخاص واماکن اور کتب کے نام اور حوالے انہیں ازبر رہتے، زندگی میں جس سے بھی ایک بار ملاقات ہوئی، انہیں وقت، مقام اور تاریخ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رہی۔ علامہ صاحب نہایت خلیق اور مزاجاً نہایت متواضع انسان تھے،ہم نے طویل عرصہ ایک ادارے میں ایک ساتھ کام کیا، لیکن الحمد للہ! کبھی جبیں پر شکن نہیں آئی، ہر ایک کے دل میں جگہ بنالیتے، پاک وہند اور بیرونِ ملک اپنے معاصر علماء ومشایخ سے ہمیشہ رابطے میں رہتے، کسی کی تعزیت پر خط لکھنا کبھی نہ بھولتے۔قلم میں روانی نہیں تھی، لیکن اپنی یادداشت پر انہوں نے کئی کتابیں لکھوائیں، جو بجائے خود ایک تاریخ ہیں۔ آپ کی خطابت کا انداز سادہ مگر پُرکشش تھا، تقریر میں اشعار کا استعمال بھی خوب فرماتے اور کتابوں اور بزرگوں کے حوالہ جات تاریخ کے ساتھ بیان فرماتے، انہیں اس بات کا شوق بھی رہتا کہ آج کے نوجوان علماء اُن سے اہلسنّت وجماعت کے تاریخی واقعات سنیں تاکہ وہ ذہنی،فکری اور عملی اعتبار سے اپنے ماضی سے جڑے رہیں اور اپنے اسلاف کے افکارِ زرّیں سے رہنمائی حاصل کر کے اپنی منزل کا تعیّن کریں۔ علامہ جمیل احمد نعیمی کے چند مخلص اہلِ ثروت دوست تھے، ان کے ذریعے وہ ضرورت مند اشخاص، اہلسنّت کے دینی مدارس، تنظیمات وتحریکات اور تصنیف وتالیف کے شعبے سے وابستہ افراد کی خاموشی سے اعانت کیا کرتے تھے۔
علامہ جمیل احمد نعیمی اپنے مزاج کے اعتبار سے تحریکی اور تنظیمی شخص تھے، انہوں نے اپنی عملی زندگی کے ابتدائی ایام میں اکتوبر 1962ء میں انجمنِ محبّانِ اسلام قائم کی اور20 جنوری 1968ء کو انجمنِ طلبۂ اسلام کی بنیاد ڈالی اور اس کی تنظیم اور تحریک کے لیے پاکستان کے شہر شہر، قصبہ قصبہ، قریہ قریہ اور کوچہ کوچہ گئے۔ بعد میں اے ٹی آئی نے کالجوں کی طلبہ یونینوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ آپ حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی کے دور میں بھی جمعیت علمائے پاکستان سے وابستہ رہے، پھر کراچی کے اکابر علمائے اہلسنّت نے 1967-68ء میں جماعتِ اہلسنّت کی بنیاد ڈالی، آپ نے اس میں بھی متحرک کردار ادا کیا، بعد کو اسی جماعت اہلسنّت نے جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے 1970ء کے قومی وصوبائی انتخابات میں حصہ لیا اور نمایاں کامیابی حاصل کی، اُس وقت شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ اس کے صدر تھے، بعد کو قائدِ اہلسنّت وقائدِ ملّتِ اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ جمعیت علمائے پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔
1970ء کے زمانے میں جماعتِ اہلسنّت کو کراچی میں بے پناہ مقبولیت اور عروج حاصل تھا، اُس وقت کے ہمارے اکابر علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری، علامہ مفتی محمد شفیع اوکاڑوی، علامہ سید سعادت علی قادری، علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری، علامہ محمد حسن حقانی اورعلامہ جمیل احمد نعیمی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی مایہ ناز شخصیات ایک پلیٹ فارم پر نظر آتی تھیں۔ علامہ سید سعادت علی قادری 1971ء میں سری نام چلے گئے تو علامہ جمیل احمد نعیمی جماعتِ اہلسنّت کے ناظمِ اعلیٰ مقرر ہوئے، راقم الحروف جماعت کا خازن تھا، سعید منزل ایم اے جناح روڈ پر جماعتِ اہلسنّت کا مرکزی دفتر تھا جو بعد میں اَخلاف کی نااہلی کی وجہ سے ہاتھ سے نکل گیا۔ جماعتِ اہلسنّت کے زیرِ اہتمام ماہنامہ ”ترجمانِ اہلسنّت‘‘ کا اجرا ہوا، علامہ جمیل احمد نعیمی اُس کے پبلشر، علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری صدر مجلسِ ادارت اور راقم الحروف مدیر مسئول تھا۔ تین سال تک بلاناغہ یہ ماہنامہ جاری رہا، ہم نے اس کے تحت تاریخی ” ختمِ نبوت نمبر ‘‘نکالا، جو اُس وقت کے اراکینِ قومی اسمبلی میں تقسیم ہوا، جبکہ قومی اسمبلی قادیانیوں کے مسئلے پر بحث کر رہی تھی، اُسی کے نتیجے میں بالآخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے اتفاقِ رائے سے 7 ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کودوسری آئینی ترمیم کے ذریعے غیرمسلم قرار دیا، اس قرارداد کے محرِّک قائدِ اہلسنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی تھے۔
جمعیت علماء پاکستان پر ایک مشکل وقت بھی آیا، جب متحدہ پاکستان کو شکست وریخت سے بچانے کے لیے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ڈھاکا گئے، عاقبت نااندیش سیاستدانوں، خوشامدی میڈیا اور ناتجربہ کار سیاسی کارکنوں نے مخالفت شروع کردی، کیونکہ اُس وقت ایک منفی سوچ پیدا کی جارہی تھی، بظاہر تویہ جذبات شیخ مجیب الرحمن کے خلاف ابھارے جارہے تھے، لیکن درحقیقت یہ سقوطِ مشرقی پاکستان کی ابتدا اور متحدہ پاکستان کے خلاف سازش تھی، پھر 16دسمبر1971ء کو اس چشمِ فلک نے پلٹن میدان ڈھاکا میں وہ منظر دیکھا جو ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوگا۔جو شخص1970ء میں پیدا ہوا، آج اس کی عمر پچاس سال ہے، لیکن اُسے کچھ خبر نہیں کہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان پر کیسی قیامت گزر گئی۔ علامہ جمیل احمد نعیمی نے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے ساتھ زندگی کے آخری سانس تک وفا کا عہد نبھایا۔مجھے یہی گلہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی اور ملکی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی،پاکستان کی تاریخ ہمارے نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں ہے، شاید اس کا مقصد یہ ہو کہ قوم کی نوجوان اور آنے والی نسلوں کو تاریخِ پاکستان سے بے خبر رکھا جائے تاکہ قومی مجرموں کے مکروہ چہرے نظروں سے اوجھل رہیں اور یہاں حقیقی احتساب کی روایت کبھی بھی قائم نہ ہوسکے۔ الغرض علامہ جمیل احمد نعیمی ممتاز عالمِ دین، مفکر، مدرّس،مایہ ناز مؤرّخ، محقِّق، خطیب اور مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ اہلسنّت کے اَسلاف کا مثالی نمونہ اور اَخلاف کے لیے قابلِ تقلید شخصیت تھے۔
کراچی میںروایت یہ تھی کہ مختلف علاقوں کے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں میلاد النبیﷺ کے جلوس نکالا کرتے تھے، اس مقصد کے لیے علاقوں اور محلوں کی سطح پر انجمنیں قائم تھیں، جب 1970ء میں اہلسنّت کو سیاسی عروج ملا توعلامہ جمیل احمد نعیمی کی نظامتِ اعلیٰ کے زمانے میں ہم نے جماعتِ اہلسنّت پاکستان کے پرچم تلے کراچی کی تمام میلاد کمیٹیوں، انجمنوں اور تنظیموں کو جمع کیا اور اُن کو اس بات پر آمادہ کیا کہ متفرق طور پر جلوس نکالنے کے بجائے ایک ہی مرکزی جلوس نکالا جائے جوجشنِ میلاد مصطفیﷺ کے شایانِ شان ہو، تمام علاقوں سے جلوس مزارِ قائد پر مجتمع ہوں اور پھر نشتر پارک میں عظیم الشان جلسۂ میلاد النبیﷺ منعقد کیا جائے، اُس دور میں یہ جلسہ عظمت ووحدتِ اہلسنّت کا عظیم الشان مظہر تھا، ہمارے اُس دور کے اکابر علمائے اہلسنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری،علامہ مفتی محمد شفیع اوکاڑوی، علامہ مفتی سید شجاعت علی قادری، علامہ سید سعادت علی قادری، علامہ جمیل احمد نعیمی، علامہ محمد حسن حقانی، پروفیسر شاہ فرید الحق، علامہ شاہ تراب الحق قادری، سمیت علماء و مشایخ، تمام دینی، سیاسی اوررفاہی تنظیمات کے سربراہان ایک سٹیج پر نظر آتے، رنگارنگ پھولوں کا یہ گلدستہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثالی نمونۂ عمل تھا، لوگ اسے رشک بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے، بعد میں یہ اکابر ایک ایک کر کے رخصت ہوتے چلے گئے، بے بہا علمی ہیرے اور موتی بکھرتے چلے گئے، وحدت کے وہ مظاہر تاریخ میں گم ہوتے چلے گئے۔
دارالعلوم نعیمیہ کے ٹرسٹی اور ناظمِ تعلیمات استاذ العلماء علامہ جمیل احمد نعیمی ضیائی صابری رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ نے 17 نومبر 2020ء نصف شب کو داعیٔ اجل کو لبیک کہااوراپنی آخری منزل کی طرف کوچ کر گئے، فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن، اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وُکُلُّ شَیْ ئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُسَمّٰی۔

پیکرِ علم و عمل، استاذُ العلماء مفتی محمد حسن حقانی رحمتہ اللہ علیہ

علّامہ محمد حسن حقانیؒ یکم دسمبر 1930ء1349ھ کوبھارت کے “ٹانڈہ” ضلع فیض آباد یوپی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی وطن بریلی، تحصیل آنولہ ہے۔ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی۔ 1938ء سے 1939ء میں حفظ مکمل کیا۔ قاری صاحب 1939ء میں اپنے والد کے ساتھ آگرہ آگئے، اور 1942ء میں یہیں سے درس نظامی کا آغاز مدرسہ عالیہ آگرہ سے کیا۔ اکثر کتب کا درس اپنے والد گرامی اور علامہ مفتی فضل الکریم بہاری سے حاصل کی۔ 1950ء میں شادی ہوئی، مگر تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ 1952ء میں میٹرک 1953ء میں مولوی، عالم اور 1954ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ 1954ء میں پاکستان ہجرت فرمائی اور 1957ء تک پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں میں ملازمت کرتے رہے۔ جب آپ کے والدِ گرامی کراچی سے ملتان تدریس کے لیے تشریف لے گئے، تو آپ کو مدرسہ انوار العلوم ملتان میں وہاں کے جلیل القدر علمائے کرام سے اکتسابِ فیض کرنے کا موقع ملا۔ 1960ء میں شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری ؒسے صحاح ستہ کی سند حاصل کی۔

اپنے وقت کے جیّد اور نام وَر علماء کے سامنے زانوئے تلمذ طے فرمایا، جن میں حضور غزالی زماں، علّامہ سیّد احمد سعید کاظمی، والد ماجد مفتی آگرہ مفتی عبدالحفيظ حقانی، شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، مفتی امید علی خاں خلیفہ اعلیٰ حضرت، علامہ مفتی مسعود علی قادری۔

سرکار کلاں، حضرت شاہ محمد مختار اشرف الاشرفی الجیلانی کے ہاتھوں مئی1958ء میں ملتان میں بیعت ہوئے اور 1989ء میں آپ کو خلافت سے نوازا گیا۔1959ء میں زمانہ طالب علمی سے ہی دارالعلوم امجدیہ سے وابستہ تھے، کچھ عرصہ علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ کے حکم پر انجمن اسلامیہ لیاقت آباد کراچی میں بطورِ عربی ٹیچر خدمات انجام دیں۔ 1964ء میں قبلہ ازہری کے حکم پر ملازمت چھوڑی اور دوبارہ امجدیہ میں تشریف آوری ہوئی۔ 1964ء سے 1992ء تک دارالعلوم امجدیہ کے عظیم مدرس، ناظمِ اعلیٰ، ناظمِ تعلیمات، نائب مہتمم اور ٹرسٹی رہے۔1992ء میں ہی دارالعلوم امجدیہ کی شاخ کے طور پر ’’جامعہ انوار القرآن” مدنی مسجد گلشن اقبال میں تدریسی انتظامات کیے اوررفتہ رفتہ تمام انتظامات منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت سے سنبھال لیے۔ آپ 1960ء سے 1966ء تک مکرانی مسجد پیر کالونی میں امام و خطیب رہے۔ تین برس 1966ء سے 1969ء جامع مسجد غوثیہ لیافت آباد 1969ء سے 1986ء جامع مسجد دارالسلام ناظم آباد 1986ءسے1989ء تک دارالعلوم امجدیہ میں خطابت کے فرائض انجام دیے،بعدازاں 1989ءسے تادمِ انتقال جامع مسجد مدنی گلشنِ اقبال میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 

واضح رہے کہ آپ نے 1958ء سے ہی سیاسی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا، جب کہ 1970ء میں JUP سندھ کے نائب ناظم مقرر ہوئے۔1974ءسے 1976ء JUP سندھ کے جنرل سیکٹری رہے۔ 1978ء میں جماعتِ اہل سنت کے مرکزی نائب صدر مقرر ہوئے۔ علاوہ ازیں تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان میں بھی خدمات انجام دیں۔تنظیم المدارس میں آپ صوبہ سندھ کے مرکزی ناظمِ اعلیٰ ، رکن مرکزی شعبہ امتحانات اور رکن مرکزی عاملہ رہے۔ 1970ء کے انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی صوبہ سندھ جب کہ 1977ء کے عام انتخابات میں نیوکراچی سے اورنگی تک دراز نشست پر بھی اللہ نے کام یابی عطا فرمائی اور رکن قومی اسمبلی مقرر ہوئے۔

آپ استاذ العلماء ، مظہرِ علم و دانش ، صائب الرائے ، عالی ہمّت اور صاحبِ عزیمت شخصیت تھے۔ آپ کی حیات ایک انجمن کی مانند تھی۔ آپ ایک دردمند شخصیت تھے۔ آپ کے دل میں قوم وملّت اور امتِ مسلمہ کا درد تھا، مزاج میں حدت رکھنے کے باوجود تعلقات کی قدر فرماتے، بسا اوقات دل میں پنہاں جذبات آنسوؤں کا روپ دھار لیتے تھے۔ آپ کے پر خلوص اور فصاحت و بلاغت سے لبریز انداز گفتگو سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا ۔آپ کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ ماحول پر پوری گرفت رکھتے تھے۔ ہر چیز کی خبر رکھتے اور ہر بات پیش نظر رہتی، بصیرت و فراست کا یہ عالم تھا کہ بعد میں پیش آنے والے حالات کا پہلے اندازہ ہو جاتا اور اس کی قبل از وقت منصوبہ بندی کرلیتے تھے۔ آپ کی مردم شناسی بھی زبردست تھی، پہلی نظر میں ہی انسان کی صلاحیت اور استعدادِ کار اندازہ لگا لیتے تھے۔

قدرت نے آپ کو بھر پور انتظامی صلاحیت سے مالا مال کیا تھا۔ آپ ایک مذہبی عالم ہی نہیں، بلکہ زبر دست منتظم بھی تھے۔ نظم و ضبط کی باریکیوں اور اس کے تقاضوں سے خوب واقف تھے۔ ساری زندگی خود بھی اس کی پابندی کی اور اپنے ارد گرد ماحول بھی ایسا ہی بنا کر رکھا۔ نظم کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کرتے ۔ ہر کام وہ خود بھی نظم و ضبط اور وقت پر انجام دیا کرتے اور دوسروں کو بھی یہی تقلین کیا کرتے، اس معاملے میں سختی فرماتے۔ ہر ایک کو سمجھاتے، سکھاتے اور تربیت دیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو آپ کی خدمت میں کچھ وقت گزار لیتا، وہ کندن بن جاتا تھا۔ آپ کا نظام زندگی ایک مضبوط قلعہ کی مانند تھا جس کو کوئی توڑ نہیں سکتا تھا۔ یہی وجہ کہ آپ کے زیر انتظام ادارے، مساجد اور مراکز نظم و انتظام کا ایک حسین پیکر ہوتے تھے۔ آپ کا حسن انتظام سب کو نظر آتا تھا اور کوئی بھی شخص اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتا تھا۔

مطالعے کا شوق اخیر عمر تک رہا، اس لیے اخبارات و رسائل اور تجزیے، تبصرے سب پڑھتے رہتے تھے، ملکی و بین الاقوامی، سیاسی و مذہبی سرگرمیوں سے گہری دلچسپی تھی۔ استاذ العلماء حضرت حقانیؒ کی زندگی یوں تو متنوع خصوصیات اور گوناگوں کمالات کی مظہر تھی، لیکن جس چیز کو آپ نے سب سے زیادہ اہمیت دی اور جسے اپنی پہچان بنایا ،وہ درس و تدریس کا شعبہ ہے۔ مسند درس کی آپ زینت بنے اور تقریباً نصف صدی پر محیط عرصے ہر طرح کے حالات میں آپ نے اس رشتے کو قائم رکھا اور علم کے پیاسوں کو کبھی محروم نہیں لوٹایا۔ 

ذوق تدریس کا عالم یہ تھا کہ مدرسہ کے علاوہ گھر پر بھی وقت دے دیا کرتے تھے۔ آپ کو تدریس سے نہ صرف بڑا شغف تھا، بلکہ اس پر نازاں رہتے کہ وہ ایک معلم ہیں، کبھی کبھار فرماتے ’’میں پاک پروردگار سے ایک ہی دعا کرتا ہوں کہ ساری زندگی پڑھایا ہے، اب پڑھاتا ہوا ہی دنیا سے جاؤں۔آپ سے سیکڑوں تشنگانِ علم نے اپنی پیاس بجھائی، جن میں سے چند مشہور ارشد تلامذہ یہ ہیں: مفتی عبدالحلیم ہزاروی علیہ الرحمہ ، شیخ الحدیث علامہ غلام جیلانی الاشرفی ، مفکر اہل سنت علامہ رضوان احمد نقشبندی، فاضلِ نوجواں مفتی محمد اسماعیل حسین نورانی، علامہ صابر حسین نورانی، علامہ لیاقت حسین الاظہری۔

17 جمادی الثانی 1430هـ، مطابق 11جون2009ء بروز جمعرات آپ کا انتقال ہوا ، اور جامع مسجد مدنی گلشن اقبال کراچی کے احاطے میں مدفون ہوئے۔اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات جلیلہ کو اپنی پاک بارگاہ قبول و منظور فرما کر آپ کے درجات بلند فرمائے۔(آمین)

ملتان کے بےتاج بادشاہ حامد علی خان رحمۃ اللہ علیہ

مولانا حامد علی خان نقشبندی، ملتان کے بے تاج بادشاہ اور قومی اسمبلی کے رکن رہے۔
ولادت
مولانا حامد علی خان نقشبندی بن مولانا شیدا علی خان 1324ھ1906ء میں رام پور، یوپی (ہندوستان) کے ایک علمی و روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کمسن تھے کہ والد کا سایہ سر اُٹھ گیا۔ دادا مہدی علی خان نے آپ کی پرورش کی۔
تعلیم و تر بیت
آپ نے علومِ اسلامیہ کی تمام کتب متداولہ (اوّل سے آخر تک) مدرسہ عالیہ رام پور میں پڑھ کر 1930ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ حدیث کے امتحان میں آپ نے دار العلوم میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ مولانا حامد علی خان نے مولانا عبد الحق خیرآبادی مولانا معز اللہ خان، مولانا نذیرالدین، مولانا وجیہ الدین اور مولانا حمایت اللہ سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔ فراغت کے بعد آپ کچھ مدت اپنے دولت کدہ پر علومِ اسلامیہ کی تدریس فرماتے رہے۔ 1932ء میں مدرسہ اسلامیہ خیر المعاد رہتک (ہندوستان) کے صدرمدرس مقرر ہوئے اور اسی دوران مسجد گشتیاں رہتک میں فرائضِ خطابت بھی انجام دیتے رہے۔ جب برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیمِ ہند (اور قیامِ پاکستان) کا مطالبہ کیا، تو آپ نے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم لیگ سے بھرپور تعاون کیا اور رہتک میں تحریکِ پاکستان کی سرپرستی فرمائی۔
ملتان آمد
1959ء میں آپ رہتک (ہندوستان) سے ملتان منتقل ہو گئے اور مدرسہ اسلامیہ خیر المعاد کے نام سے ایک دار العلوم کی بنیاد رکھی۔ تحریکِ ختم نبوت 1974ء میں آپ ملتان کے احتجاجی جلوسوں اور جلسوں کی قیادت کرتے ہوئے قائدانہ خطاب فرماتے رہے۔1977ء میں آپ نے ملتان ہی سے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔[1]
وفات
مولانا حامد علی خان 7جنوری 1980ء کو رحلت فرمائی اور قلعہ کہنہ قاسم باغ میں مزا رہے ۔[2]
 
ملتان کے بے تاج بادشاہ مولانا حامد علی خان نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
 رضائے الٰہی اور حب مصطفیؐ کے امتحان میں عزیمت اور استقامت کے راستے پر چلنے والے اولیاء اللہ کی کہکشاں میں  قلندر زماں‘ پیر طریقت مولانا حامد علی خاںؒ کا اسم گرامی روشن ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا حامد علی خان نقشبندی، ملتان کے بے تاج بادشاہ اور قومی اسمبلی کے رکن رہے۔
حیات مستعار میں نہ جانے کتنے ہی طوفان اٹھتے ہیں مگر آپ کی جبین استقلال پہ بل نہیں آتا۔ ان کی  سیرت‘ مادیت‘ ظلمت اور تاریکیوں کے دور میں ایک آفتاب تاباں کی مانند ہے۔ آپ دعوت حق کے ایک غیرت مند رہنما تھے۔  آپ کا علم و فضل‘ کردار و افکار‘ دعوت و تحریک‘ عزیمت اور استقامت حق سب کچھ قابل تقلید ہے۔ آپ حضرت مجدد الف ثانیؒ ‘ امام فضل حق خیر آبادیؒ مفتی کفایت علی شہیدؒ اور مفتی عنایت احمد کاکوریؒ جیسے عظیم عاشقان مصطفیؐ کی فکر کے امین تھے اور قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے ہمنوا تھے۔مولانا حامد علی خاں نے 1906ء میں مہدی علی خاں کے بیٹے شیدا علی خاں کے گھر جنم لیا۔ یہ رام پور کا مشہور علمی گھرانہ تھا۔ حضرت مولانا حامد علی خاں نے صرف 24 سال کی عمر میں دینی تعلیم رام پور میں ہی مدرسہ عالیہ میں حاصل کی۔ آپ نے مولانا فضل الحق‘ مولانا معزاللہ خان اور مولانا وجیح الدین جیسے علمی شخصیتوں سے تعلیم حاصل کی اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہیں علم و فرقان کی مجلسیں برپا اور فیض کے چشمے جاری ہونے لگے۔ 1932 ء میں اپنے استاد حضرت عنایت اللہ خان کے حکم پر حضرت رام پور سے روہتک تشریف لے آئے اور مدرسہ اسلامیہ خیرالمعاد سے منسلک ہو گئے۔1959 ء میں پاکستان تشریف لے آئے۔ آپ کے خلوص ‘ محبت اور تقویٰ نے پورے ملتان کو جلد اپنا گرویدہ بنا لیا۔ آپ نے اس دور میں اپنا لوہا منوایا جب ظلمتوں کا دور دورہ تھا وہاں پر ایک محبتوں کا امین شخص عصا تھامے خراماں  خراماں اخوت و مروت اور اخلاق و آداب کی بنجر زمین کی آبیاری میں ناصرف اپنا پسینہ بلکہ خون جگر بھی ڈالنے کا عظم مصمم کیے ہوئے تھا۔
 30 جون 1970 ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پاکستان سنی کانفرنس میں شرکت کی۔ 1977ء کے انتخابات میں اہلیان ملتان کے پرزور اصرار پر اس بوریا نشین قلندر نے وادی سیاست میں آبلہ پائی کا فیصلہ کیا۔ سیکولر اور دنیاوی قوتوں سے نبردآزماں ہونے کیلئے تائید ایزدی اور عشق مصطفیؐ کے اسلحہ سے مسلح ہو کر مختلف قوتوں کو نشانِ عبرت بنا دیا۔ جب خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کا موقع آیا تو آل رسول کے اس سچے غلام نے جو ساری عمر ’’قال اللہ وقال رسول اللہ‘‘ کی صدائیں بلند کرتا رہا کچھ اس سج دھج سے اور جاہ و جلال سے نکلتا ہے کہ جشم فلک ’’جرات عشق مصطفیؐ‘‘ پہ ناز کرتی ہے۔ حضور پیر طریقت نے ساری عمر عشق نبیؐ میں ’’کشتگانِ خنجر تسلیم را‘‘کا درس دیا تھا اوراب  سب سے پہلے خود اس کی عملی تصویر بننا چاہتے تھے پھر وہ دن بھی آپہنچا جو ملتان کی تاریخ کا قیمتی اثاثہ‘ ساکنان زمین کا مان اور ملائکہ کیلئے وجہ مسرت تھا۔ ایک طرف قوت کے جابر حاکموں نے اس مصطفائی غلام اور حسینی شیر کیلئے درِ زنداں کھول لیا تھا فوج کی بکتر بند گاڑیاں حکم کی منتظر تھیں اور دوسری طرف غلاموں دیوانوں اور عشاق کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر گریبان کھول کر ٹینکوں کے سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں چلاؤ گولیاں! چلاؤ گولیاں!ہمارے حضرت کو گرفتار کرنے سے پہلے تمہیں ہماری لاشوں پر سے گزرنا پڑے گا مگر کریم کربلا سیدنا حسین ابن حیدرؓ کے غلام اور حضرت مجدد الف ثانی کے پیروکار زندانوں کو آباد کرنے کیلئے چلا آرہا تھا امن و آشتی کے علمبردار کے اشارہ ابرو پرہجوم عاشقاں نے نگاہیں جھکائیں   اور لب سی لیے ۔آپؒ نے فرمایا’’اے تحریک نظام مصطفیؐ کے جانثاروں! آپ لوگ بھی کمال کرتے ہیں خود تو تحریک نظام مصطفی کیلئے جانیں دینے کیلئے تیار ہو اور مجھے صرف گرفتار بھی نہیں ہونے دیتے ۔ میں حکم دیتا ہوں کہ ہٹ جاؤ میرے اور فوج کے درمیان حائل نہ ہو۔‘‘ پھر آپ نے آمریت کے محل منہدم کردئیے۔ ظلم و ستم کے بت پاش پاش ہو گئے۔ آمریت و فسطائیت سے نبردآزماں ہو کر جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر کے یہ ثابت کر دیا کہ مومن اپنی نرم گفتگو اور ریشم کی طرح اوصاف کے ساتھ ساتھ حق و باطل کیخلاف مردآہن کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔آپ کے کردار نے معاشرے کو نیا بانکپن دیا اور غلامان محمدؐ کو بھولا ہوا سبق یاد  دلایا۔ آمریت کی دہلیز پر فولادی جسم بن کر اُبھرے اور اہل حق اوراہل علم کے دلوں کے حکمران بن گئے۔دوران اسیری ظلم و ستم اور بے پناہ تشدد   ہی اس جہا ن فانی سے انتقال کی وجہ بنا۔ 7 جنوری 1980 ء بروز پیر امت مسلمہ اس دلیر ‘ نڈر اور جری قائد سے محروم ہو گئی۔ مدینتہ الاولیاء ملتان شجرسایہ دار سے محروم ہو گیا ۔8 جنوری 1980 ء کو سہ پہر 3 بجے قاسم باغ میں علامہ احمد سعید کاظمیؒ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ عاشق مصطفیؐ کے جنازے کو عقیدتمند بڑے تزک و احتشام سے لیکر آئے اور آہوں‘ سسکیوں اور آنسوؤں کے سلام کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ کیا۔ قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ نے نماز جنازہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’آج ہمارے سر سے ایک مربی اور سرپرست کا سایہ اٹھ گیا ہے آپ کی ذات مجمع بحرین اور علم شریعت اور علم طریقت کا مجموعہ تھیں آپ نے نظام مصطفیؐ کی تحریک میں جس طرح جدوجہد کی وہ سب کیلئے قابل تقلید ہے‘‘ تاجدار ملتان مولانا حامد علی خاںؒ ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے جو اپنے حلقۂ ارادت کیلئے پیر طریقت تھے۔ آپ کا مرقد آج بھی علم و ہدایت کا عظیم مرکز اور دانش گاہ تشنگان علوم کی پیاس بجھا رہی ہے۔ اللہ کریم حضرت کی تربت پر بے حساب رحمتیں نازل فرمائیں اور آپ کے خاندان کو عزت و عظمت و جلالت کے ساتھ قائم و دائم رکھے۔ (آمین)