مرکزی قیادت

حضرت علامہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمدزبیر

صدر جمعیت علماء پاکستان ،صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان
نام و نسب:صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر 18رجب المرجب1373ھ کوحیدرآباد (سندھ) میں پیدا ہوئے،آپ کاسلسلہ نسب میزبان مصطفی ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کرملتا ہے۔
آباؤ اجداد:آپ کے والد گرامی پاکستان کی عظیم علمی اورروحانی شخصیت حضرت شاہ مفتی محمد محمود الوری رحمۃ اللہ علیہ جن کا مزار مبارک راجپوتانہ ہسپتال حیدرآبادمیں مرجع خلائق ہے۔آپ کے دادا پاک و ہند کے عظیم روحانی بزرگ مشہور زمانہ کتاب ”رکن الدین“کے مصنف حضرت شاہ رکن الدین الوری ہیں جن کا مزار مبارک الور راجھستان ہندوستان میں ہے انکے بارے میں مشہورہے کہ جس کافر پر ان کی نظر پڑ جاتی تھی وہ کلمہ پڑ ھ کر مسلمان ہو جاتا تھااورمولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ان کا بڑا احترام کرتے تھے اور ان کو ان الفاظ میں یاد کرتے تھے۔مولانا المبجل المکرم المکین جعل اللہ ممن شیدبھم رکن الدین (مولانا المکرم ذی امجدالمکرم واکرم الاکرم تعالیٰ وتکرم) (فتاویٰ رضویہ ج و س  ۶۱۱/۷۱۱)
آپ کے نانا ہندوستان کے مفتی حضرت شاہ مفتی محمد مظہراللہ شاہ ہیں جن کی بارگاہ میں قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان حاضری دیتے تھے اور ان سے دینی امور پر رہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔
تعلیم: آپ نے اپنے والد گرامی کے علاوہ مولانا محمد اشرف سیالوی، علامہ عطاء محمد بندیالوی،جسے اکابر علماء سے علوم عقلیہ،اور نقلیہ کی تکمیل کی اور ان سے سند حدیث سند فقہ حاصل کی بورڈ آف انٹر میڈیٹ حیدرآباد سے علوم شرعیہ مولوی، مولوی عالم،مولوی فاضل کے امتحانات پاس کئے اورسندھ یونیورسٹی سے 1977ء میں ایم اے،اور 1993ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔آپ نے جامعۃ الازھر (مصر) میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور1986ء میں وہاں کی سند بھی حاصل کی۔
اجازت خلافت:1968میں آپ کے والد گرامی نے آپ کو سلسلہ نقشبندیہ،قادریہ،چشتیہ میں اجازت و خلافت سے نوازااس کے علاوہ عرب وعجم کی ایک معروف علمی اور روحانی شخصیت حضرت علامہ سید محمد علوی مکی نے بھی معقولات،منقولات کی تمام کتب اور کئی روحانی سلسلوں کی آپ کو اجازت عطاء فرمائی۔آپ کے مریدین اندرون ملک اور بیرون ملک کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
دینی علمی خدمات:آپ علمی تبلیغی دوروں کے ذریعہ اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے ہزاروں مریدوں کی جہاں علمی،روحانی رہنمائی کرتے ہیں وہاں فقہ اور عقائد کی اہم کتب کی تدریس اورفتویٰ نویسی کے ذریعہ تشنگان علم کی علمی پیاس کو بجھاتے ہیں،فوائد مشکوۃ، سندھ کے صوفیائے نقشبند،جدید شرعی مسائل، اعضاء کی پیوندکاری،مصباح العقائدجیسی درجنوں آپ کی تصنیفات مخلوق خدا کی فکری رہنمائی اور تربیت میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔آپ کی زیر سرپرستی چلنے والے ادارہ رکن الاسلام جامعہ مجددیہ جسکی سند شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور،سندھ یونیورسٹی جام شورو اور جامعۃ الازھر(مصر) جیسی اسلامی جامعات سے منظور شدہ ہے اس کی ملک بھر میں پھیلی ہوئی شاخوں سے ہزاروں کی تعداد میں حفاظ قراء علماء خطباء مدرسین، فارغ التحصیل ہو کر ملک کے گوشہ گوشہ میں اور ملک سے باہر دیگر ممالک میں دین کی خدمات انجام دے رہے ہیں آپ نے حق نبی،مغفرت ذنب اور اعضاء کی پیوند کاری جیسے اختلافی مسائل پر قلم اٹھایا اور عقلی و نقلی د لائل سے اپنے موقف کو ثابت کر کے وقت کے بڑے بڑے علماء کی تائید حاصل کی۔
بین الاقوامی کانفرنسیں:ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے اہم دینی مذہبی اور سیاسی جلسوں،جلوسوں اور کانفرنسوں کے علاوہ آپ نے سعودی عرب، بیلئجم،جرمنی،ہالینڈ،مسقط کے دورے کئے اور وہاں متعددہونے والی اہم محافل اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں خطاب کئے۔
سیاسی سفر: آپ نے قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی کے اصرار پر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔1984ء میں جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا ہوا تھااور سیاسی جماعتوں پر پابندی تھی اور جمعیت علماء پاکستان کے اکابرین تحریک نظام مصطفی کے نام سے کام کررہے تھے اس وقت قائد ملت اسلامیہ کے ارشاد پر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے تحریک نظام مصطفی حیدرآباد ڈویژن کے صدر کا عہدہ قبول کیا اور اس پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا22نومبر1984ء کوتحریک کی صوبائی تنظیم کے انتخابات ہوئے جس میں آپ کو بالا تفاق اور بلا مقابلہ صوبہ سندھ کا جنرل سیکریٹری چنا گیااوررکن مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی منتخب کیا گیا1987ء میں آپ کی کارکردگی کے پیش نظر آپ کو دوبارہ جمعیت علماء پاکستان صوبہ سندھ کا جنرل سیکریٹری چنا گیا 1990ء میں جب جماعتی انتخابات ہوئے تو آپ کو بلا مقابلہ جے یو پی سندھ کا سینئر نائب صدر منتخب کیا گیااور ساتھ ہی ساتھ مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے آپ ممبر بھی منتخب ہوتے رہے۔2007ء تک آپ جے یو پی کی صوبہ سندھ اور مرکز کے اہم عہدوں پرفائز رہے 2008ء میں جے یو پی کی شوریٰ و عاملہ نے بالا تفاق آپ کو مرکزی صدر منتخب کیا 2009ء میں آپ کو دوبارہ جمعیت علماء پاکستان کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا2011ء میں آپ کو تیسری بار شوریٰ و عاملہ نے بالاتفاق صدر منتخب کیا،2014ء میں آپ چوتھی 2018میں پانچویں 2022ء میں چھٹی بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے۔
سیاسی خدمات:آپ نے پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے جب سیاسی سفر کا آغاز کیا تو پورے سندھ کے طوفانی دورے کئے اور سینکڑوں علماء مشائخ،وکلا، تاجر اور معاشرے کی اہم شخصیات کو جے یو پی میں شامل کراکے پارٹی کو مضبوط کیا۔
          آپ کی صوبائی قیادت کے دورے میں سندھ کے شہروں میں بالخصوص کراچی،حیدرآبادکے جو بلدیاتی انتخابات ہوئے اس میں جے یو پی کو نمایاں کامیابیاں ملیں حتیٰ کے حیدرآباد شہر کے میئر اور حیدرآباد سے قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹیں بھی آپ ہی کی کاوشوں سے جے یو پی کو ملیں۔
1982ء میں جب الطاف حسین نے لسانی عصبیت کی آگ بھڑکائی اور قتل کا بازار گرم کیا اور بوری بند لاشوں کا کلچر عام کیا اس وقت اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آپ نے قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی کے شانہ بشانہ ان عصبیتوں کا مقابلہ کیا اور امت میں اتفاق و اتحاد کی فضاء قائم کرنے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا۔
          آپ نے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات اور قتل و غارتگری کو ختم کرانے کی بھی بھرپور جدوجہد کی آپ متحدہ مجلس عمل (MMA) کے ٹکٹ پر 2002ء میں حیدرآباد سے ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما آفتاب احمد شیخ کو ہرا کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور وہاں اسمبلی کے فلور پر لسانیت وفرقہ واریت اور سیکولر ذہنیت کے خلاف اور اسلامی شعائر کے تحفظ کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔ آپ کی پارلیمانی خدمات پر ایک مکمل کتاب عنقریب منظر عام پرآنے والی ہے۔
          امت مسلمہ میں اتفاق واتحاد کے قیام میں آپ کی کاوشوں کے پیش نظر آپ کو ملک کی تیس (30)بڑی مذہبی جماعتوں کے سب سے بڑے اتحاد”ملی یکجہتی کونسل“کا دوبار بلا مقابلہ صدر منتخب کیا گیا۔اور آج بھی اآپ ملی یکجہتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے امت مسلمہ میں اتفاق کی فضاء قائم کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔
          جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا ارادہ کیااور شیریں رحمن نے ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میں بل جمع کرادیا تو اس کے خلاف تحریک چلانے کیلئے تمام مسالک کی اہم ترین 80جماعتوں کے مرکزی قائدین کا ایک اجلاس اسلام آباد میں منعقدہوا جس میں صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کو بالا تفاق تحریک ناموش رسالت کا سربراہ منتخب کیا گیااور آپ کی زیرصدارت تحریک شروع کی گئی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تحریری طور پر حکومت کے اس موقف کا اعلان کیا کہ ہم  تحفظ ناموس رسالت ﷺ295 سی میں کوئی ترمیم نہیں کررہے۔

ڈاکٹر جاویداعوان

سئینر نائب صدرجمعیت علماء پاکستان

پیر سید محمد صفدر شاہ گیلانی

سیکریٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان
صاحبزادہ سید صفدر شاہ گیلانی (ایم اے اسلامیات) 1963ء میں کندیاں کے ایک علمی روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے  ، بانی میانوالی حضرت سید میاں علی شاہ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ(جوکہ حضرت سید شیخ جلال الدین گیلانی بغدادی کے فرزند ہیں )ان کے بیٹے حضرت سید الشیخ میاں محمد اسحاق شاہ گیلانی رحمتہ اللہ کی اولاد سے ہیں ان کے ایک بزرگ اپنے دور کے مستند عالم دین الشیخ السید میاں احمد الدین شاہ گیلانی گانگوی رحمتہ اللہ علیہ سیال شریف میں صدر مدرس رہے شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ ، امام المناطقہ علامہ عطا محمد بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ محمد اکبر علی میروی رحمتہ اللہ علیہ جیسی  جلیل القدر شخصیات کے استاد تھے ،  سید محمد صفدر شاہ گیلانی نے زمانہ طالبعلمی سے ہی تنظیمی تحریکی زندگی شروع کر دی تھی کیونکہ ان کے دادا صوفی  باصفا الشیخ السید مولوی میاں اکبر علی شاہ گیلانی قادری رحمتہ اللہ علیہ ، اور ان کے والد عالم باعمل خطیب بیباک الشیخ السید حکیم میاں غلام حیدر شاہ گیلانی رحمتہ اللہ علیہ مجاہد ملت بطل حریت حضرت مولانا محمد عبد الستار خان نیازی رحمتہ اللہ علیہ کے جانثار ساتھیوں میں سے تھے اس لئے بچپن سے ہی نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدو جہد میں مصروف ہوگئے
پہلی گرفتاری 1985 میں ہوئی بعد ازاں تحفظ ناموس رسالت کی پاداش میں کئی مرتبہ گرفتاریاں ہوئیں حتی کہ دھشت گردی کورٹ میں بھی مقدمات کا دیدہ دلیری سے سامنا کیا  زمانہ طالبعلمی میں انجمن طلباء اسلام کے مقامی ضلعی ،صوبائی ،مرکزی عہدوں پر رہے  جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری ،صوبائی نائب صدر ، مرکزی نائب ناظم اعلیٰ  ، جمیعت علماء پاکستان (نیازی) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ،اور یوتھ ونگ (انجمن نوجوانان اسلام) کے مرکزی صدر رہے ،  سنی اتحاد کونسل کے بانی اور مرکزی چیف آرگنائزر رہے ، ، اور اب جمیعت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر ہیں 
سید محمد صفدر شاہ گیلانی پندرہ سال تک ممبر اتحاد بین المسلمین کمیٹی حکومت پنجاب رہے ، ممبر نان آفیشل جیل خانہ جات حکومت پنجاب رہے ، پنجاب اسمبلی میں جے یو پی (نیازی)کے پار پیمانہ ترجمان بھی رہے ،،،  جبکہ تحصیل کونسل پپلاں کے ناظم اور علاقہ میں چیئرمین عشر زکواۃ کمیٹی بھی رہے ،  شعبہ صحافت کے حوالے سے روزنامہ جنگ سے تقریباً 20سال تک وابستہ رہے انجمن صحافیان ضلع میانوالی کے صدر بھی رہے مختلف اخبارات و رسائل میں کالم نویس بھی رہے ، کئی ملکی و بین الاقوامی فورمز پر نمائندگی کر چکے ہیں۔

پیر ناصر جمیل ہاشمی

رکن پریم کونسل جمعیت علماء پاکستان (نورانی)
نام و نسب: پیر ناصر جمیل ہاشمی نے یکم اکتوبر1963؁ء کو رتہ شریف تحصیل کلر کہار،ضلع چکوال میں مفتی عبدالقدوس ہاشمی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں آنکھ کھولی۔
آباؤ اجداد: شجرہ نسب کے اعتبار سے اعوان قبیلے کی قطب شاہی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اڑھائی تین سو سال قبل ان کے بزرگوار محمد اکرم المعروف حاجی میاں صاحب تلہ گنگ کے گاؤں کھجیاں سے رتہ شریف تشریف لائے انہوں نے مدینہ سے علم حاصل کیا وہیں رہائش اختیار کی اور سات حج کرنے کی سعادت بھی حاصل کی یہ بزرگوار اپنے والد صاحب کے حکم پر وہاں تھے پھر بشارت نبوی ﷺ سے سرفراز ہو کر رتہ شریف میں سکونت اختیار کی خواب میں زیارت سرکار ﷺ میں سکونیت کی جگہ کی نشاندہی بھی فرمائی گئی تھی یہی وہ جگہ ہے جہاں موجودہ جامع مسجد واقع ہے یہ مسجد بھی انہوں نے خود تعمیر کروائی تھی یہیں انہوں نے تبلیغ دین کا فریضہ سر انجام دیاان کے پردادا حضرت امام الدین رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں حضرت خواجہ غلام نبی للھی المعروف اعلحضرت للھی سے خلافت حاصل کی رتہ شریف میں ان کے دادامفتی عطاء محمد صاحب کے عرس کے موقع پر ہر سال تقریر ہوتی تھی جس کا سلسلہ آج بھی برقرار ہے
            والد بزرگوار مفتی عبدالقدوس ہاشمی امام اہلسنت حضرت ابو البرکات سید احمد قادری کے نامور شاگردوں میں سے تھے،وہ ملتان میں منعقدہ سنی کانفرنس میں قافلہ کی قیادت کرتے ہوئے شریک ہوئے انکے ساتھ للہ شریف کے موجودہ سجادہ نشین حضرت صاحبزادہ پیر مطلوب الرسول صاحب جو آپ کے مرشداور پھوپھی زاد بھائی بھی ہیں شریک تھے والد صاحب علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ کالج میں بھی اسلامیات پڑھاتے تھے۔
تعلیم:پیر ناصر جمیل ہاشمی نے گورنمنٹ ہائی اسکول سرگودھا سے1980؁ء میں میٹرک کیا،1986؁ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھاجسے اب یونیورسٹی آف سرگودھا کہا جاتا ہے سے گریجویشن کیا،1987؁ء میں الائیڈ بینک میں ملازمت اختیار کی تین سال بعد بینک آف پنجاب میں چلے گئے 4سال بعد 1995؁ء میں ملازمت چھوڑ کر اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا انہوں نے 2002؁ء میں جے یو پی کے کوٹہ پرMMAکے ٹکٹ پرانتخاب لڑایہیں سے سیاسی اور تنظیمی سفر کا آغاز ہواحضرت مفتی عطاء محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سیاست میں قدم رکھا ان کے سسر محترم جنہوں نے قومی اتحاد کی تحریک میں شاندارکردار ادا کیاتھا۔
والد بزرگوار مفتی عبدالقدوس ہاشمی رحمۃ اللہ علیہ کا امام اہلسنت علامہ سید ابوالبرکات محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ سے گہرا تعلق تھے جن کی کوششوں سے 1970؁ء میں جمعیت کے تمام دھڑے متحد ہوئے اور قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃ اللہ علیہ قیادت کے منصب پر جن کے حکم سے فائز ہوئے آج سعادت مند بیٹا بزرگوں کی یاد گار جماعت جمعیت علماء پاکستان کے عروج کیلئے کمر باندھے ہوئے ہے آپ2002؁ء میں رکن مجلس شوری بنے،2003؁ء میں جوائنٹ سیکریٹری پنجاب،پھر نائب صدر پنجاب بنے 2008؁ء میں مرکزی جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے،2011سے مرکزی نائب صدر کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس  کے بعدجے یو پی کی سپریم کونسل کے چیئرمین کے فرائض انجام دے چکے ہیں اس وقت جےیوپی کی سپریم کونسل کے رکن ہیں