مبارک ثانی کیس کے سلسلے میں 6فروری کو چیف جسٹس قاضی فائزصاحب نے جو فیصلہ کیا اس کے بعد پورے ملک میں اہل ایمان نے مظاہرے کئے اور پر امن احتجاج ریکارڈ کرایا جس سے ملک میں انتشار و افتراق پیدا ہواجس کے نتیجہ میں چیف جسٹس صاحب نے دعوت دی کہ آپ آئیں اور ہمیں بتائیں کہاں غلطی ہوئی ہے لہذا ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر نے ریویو اپیل داخل کی اور 22اگست کو خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ اس ریویو اپیل کے بعد 24جولائی کو پھر چیف جسٹس صاحب نے جو فیصلہ سنا یا اسے بھی تمام دینی حلقوں اور جماعتوں کے قائدین نے مسترد کردیا جمعیت علماء پاکستان،ملی یکجہتی کونسل نے اہم اجلاس بلائے جلسے کئے اے پی سی بلائیں اوراحتجاج کیا اورجب احتجاج کا دائرہ بڑھتا گیا تو وفاق کی درخواست پرسپریم کورٹ نے 22اگست کو14علماء کوبلا یا جن میں صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر،مفتی منیب الرحمن،مفتی تقی عثمانی،مولانا شیر محمد،حافظ نعیم الرحمن،مولانا فضل الرحمن کے نام شامل تھے جو کود پیش ہوئے،حافظ نعم الرحمن پیش نہیں ہوئے،ان کے نمائندہ فرید پراچہ پیش ہوئے مفتی منیب الرحمن صاحب بھی نہیں پہنچ سکے ان کا نمائندہ مولانا حبیب الحق اور مفتی شیر محمد پیش ہوئے،مفتی تقی عثمانی صاحب نے ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی پارلیمنٹ میں بھی مختلف جماعتوں کے ایم این ایز نے اس فیصلہ کے خلاف آواز اٹھائی اور اسے مسترد کیا۔ صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر ملی یکجہتی کونسل اور جمعیت علماء پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے قائد علامہ شاہ احمد نورانی نے ملی یکجہتی کونسل اس لئے بنائی تھی کہ ملک میں انتشار پیدا نہ ہو اور ملک کو خلفشار سے بچا یاجائے یہ ہمارا مشن ہے لیکن آپ نے مبارک ثانی کیس کا جو فیصلہ دیا اس سے ملک میں انتشار اور خلفشار پیدا ہو گیاہم چاہتے ہیں آپ اس کو ختم کریں چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ہم نے آپ کو اسی لئے بلایا ہے آپ تجویز دیں اس انتشار کو کیسے ختم کیا جائے صاحبزادہ زبیر نے کہا کہ میری نظر میں صرف پیرا گراف 42اورپیرا گراف 7ہی غلط نہیں ہیں بلکہ آپ کے فیصلے کے اس میں مختلف پیرا گراف قابل اعتراض ہیں آپ نے ان پیرا گراف میں قادیانیوں کو بند کمرہ یا خلوت میں تبلغ کی اجازت دے دی ہے حالانکہ وہ بند کمرے میں قرآن کے غلط معنی بیان کریں گے یا غلط تشریح کر کے قرآن کی توہین اور تحریف کریں گے اس کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اجازت دے رہے ہیں کہ اگر کوئی بند کمرے میں ملک توڑنے کے خلاف سازش کرے گا تو اس پر غداری کا مقدمہ نہیں بنے گاکیایہ جرم نہیں ہے اس پر سب کو اعتراض ہے لہذا اس کو ختم کریں۔ لیکن یہ صرف ایک پیرا گراف نہیں ہے کئی پیرا گراف ہیں جنہیں اس تھوڑے سے وقت میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ایک ایک پیرا گراف پر کئی کئی گھنٹے لگیں گے کیونکہ ہر پیرا گراف کے دوپہلو ہیں ایک شرعی پہلو ہے دوسرا قانونی پہلو ہے شرعی پہلو آپ مجھ سے پوچھیں گے میں قرآن،حدیث،فقہ کی روشنی میں بتاؤں گا کہ اس میں کہاں کہا ں کیا کیاخامیاں ہیں لیکن اگر اس کا کوئی قانونی پہلو ہے اس کا میرے وکلاء بتائیں گے وہ تیاری کرکے آئے ہیں لیکن آپ کسی وکیل کو بولنے کی اجازت ہی نہیں دیتے پہلی سماعت میں بھی کسی وکیل کو بولنے کی اجازت نہیں دی آج بھی وکیل آرہے ہیں بولنا چارہے ہیں لیکن انہیں بولنے کی اجازت نہیں ہے ان کو اجازت دیں اس پر چیف جسٹس نے کہا آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس اندازسے ڈسپلین کی خلاف ورزی کررہے ہیں صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ وہ تو صحیح ہے ڈسپلین کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے لیکن یہ سب عاشق رسول ہیں اور چاہتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ حضور کی ختم نبوت کے حق میں بول کر اپنا حصہ بھی شامل کرلیں اورہم بھی حضور کی شفاعت کے مستحق ہو جائیں جس پرچیف جسٹس صاحب نے کہا کہ انہیں ڈسپلین کا خیال رکھنا چاہئے۔صاحبزادہ زبیر صاحب نے کہا کہ اس کے لئے آپ ہمیں وقت دیں وکلاء تیاری کرکے آئے ہیں میرے قائد علامہ شاہ احمد نورانی نے جب یہ قراردار پیش کی تھی اس پر پارلیمنٹ میں کئی دن بحث ہوئی جب صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر صاحب نے نورانی صاحب کا نام لیا تو چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ وہ کراچی میں ایک فلیٹ میں رہتے تھے میں نے 16سال کی عمر میں وہاں جا کر ان سے ملاقات کی تھی اس کے بعد صاحبزادہ زبیر صاحب نے کہا کہ آپ وقت دیں ہم سپریم کورٹ کو مطمئین کریں گے کہ کون کون سے پیرا گراف ہیں جن پر پوری امت مسلمہ کا اعتراض ہے دوسرا آسان حل یہ ہے کہ آپ کے پاس اتحاد مدارس دینیہ جو تمام مسالک کے مدارس کا اتحاد ہے اس کی طرف سے بھی تفصیلی رپورٹ آپ کے پاس آچکی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ کہاں کہاں آپ کے فیصلے میں خامیاں ہیں اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل جو تمام مسالک کامتفقہ قانونی سرکاری ادارہ ہے اس کی طرف سے بھی رپورٹ آچکی ہے کہ کون کون سے پیرا گراف پر اعتراض ہے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،ملی یکجہتی کونسل نے اعتراضات جمع کردئیے ہیں وہ اور تمام ریویو اپیلیوں کو نکال کر اپنے سامنے رکھیں اور اس کی روشنی میں قابل اعتراض تمام پیراگراف کو نکال دیں انہوں نے کہا کہ خواہ مخوہ آپ اس کیس میں پڑے ہیں یہ سادہ سا کیس تھا ضمانت کا۔ نچلی عدالتیں اس کا فیصلہ کردیتیں ضمانت کیلئے بھی آپ ٹرائل کورٹ کو کہتے وہ ٹرائل کرتا ٹرائل ہی نہیں ہوا ابھی تک بات ہی نہیں سنی گئی ہے اب تک۔ آپ فیصلہ ٹرائل کورٹ کے سپرد کریں اور نچلی عدالتوں کو کہیں اس کا فیصلہ کریں جتنے بھی متنازعہ پیرا گراف ہیں انہیں نکالنے کا آپ اعلان کریں اس وقت فوری طور پرملک میں جوانتشار ہے پورے ملک میں آگ لگ ہوئی ہے امت مسلمہ پریشان ہے انہیں فوری تسلی ہو جائے گی اور امن وامان کی فضا پیدا ہو جائے گی یہ میری دوسری تجویز ہے درمیان میں بھی چیف جسٹس سے گفتگو ہوتی رہی۔انہوں نے شروع میں ملی یکجہتی کونسل کے بارے میں پوچھا کہ اس اتحاد میں کتنی جماعتیں شامل ہیں توصاحبزادہ زبیر صاحب نے کہا کہ تمام مسالک کی22بڑی بڑی جماعتیں اس اتحاد میں شامل ہیں یہ بہت بڑا دینی اتحاد ہے جو علامہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے تمام مسالک کے اکابرین کے ساتھ مل کر اتحاد و اتفاق کی فضاء پیدا کرنے کیلئے بنایا تھااور اس وقت آپ کے فیصلے سے انتشار پھیل رہاہے اسے ختم کریں دوسراصاحبزادہ زبیر صاحب نے انہیں کہا کہ پچاس سال ہوگئے ہیں ہم گولڈن جوبلی منارہے ہیں تو چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ کس چیز کی گولڈن جوبلی منارہے ہیں توصاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر صاحب نے کہا کہ 1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا تھا اب2024ء میں پورے پچاس سال ہوگئے ہیں اس کی ہم گولڈن جوبلی منارہے ہیں صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ اس خوشی کے موقع پر آپ کوئی اچھا ایسا فیصلہ کرکے ہماری خوشی میں شریک ہو جائیں انہوں نے مولانافضل الرحمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانانے گولڈ جوبلی کی خوشی میں مینار پاکستان پر بہت بڑا پروگرام رکھا ہے کئی لاکھ لوگ جمع ہورہے ہیں دیکھیں پوری دنیا میں خوشیاں منائی جارہی ہیں آپ بھی کوئی ایسا فیصلہ کردیں جس سے ہماری خوشی دوبالا ہوجائے آخر میں صاحبزادہ زبیر نے کہا کہ یہ ختم نبوت کا معاملہ ہے معمولی معاملہ نہیں ہے اس کی اہمیت کا آپ اس سے اندازہ کریں کے پارلیمنٹ کے اندر بھی حزب اختلاف حزب اقتدار کے اندر رسہ کشی ہے ایک دوسرے کے خلاف ہیں لیکن اس معاملہ کے اندر سب کی یکساں آواز ہے کہ آپ کے اس فیصلہ میں بہت سی خامیاں ہیں اس پر چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ پارلیمنٹ کی طرف سے وفاق نے ایک درخواست جمع کرائی ہے اس پرصاحبزادہ زبیر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے ارکان نے اس درخواست پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے رد کردیا ہے اس پر کورٹ میں موجود لطیف کھوسہ نے کہا کہ صاحبزادہ صاحب صحیح کہہ رہے ہیں ہم نے یہ درخواست مسترد کردی ہے صاحبزادہ زبیرنے کہا کہ اسی طرح تمام مسالک کے لوگ متفق ہیں خواہ اسلامی نظریاتی کونسل ہو خواہ ملی یکجہتی کونسل ہو سب نے بالا اتفاق آپ کے فیصلہ کو مسترد کیا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے آپ فیصلہ کریں صاحبزادہ زبیر صاحب نے کہا کہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے ختم نبوت کا تو اتنا اہم مسئلہ ہے کہ جو اس کے حق میں بات کرے گا اور اس کیلئے کام کرے گا وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوگااور جو اس کے خلاف بات کرے گا وہ دنیا میں بھی رسوا ہو گا اور آخرت میں بھی رسواہوگاصاحبزادہ زبیر صاحب نے کہا کہ بڑی بڑی کتابوں میں جو واقعات آئے ہیں وہ تو الگ بات ہے میں آپ کو پاکستان کا ایک واقعہ سناتا ہوں پاکستان کا ایک حکمراں گورنر جنرل غلام محمد گزراہے اس نے اپنے دور میں ختم نبوت کے عاشقوں پر گولیاں برسائی تھیں جب وہ مرگیا تو اس نے یہ وصیت کی تھی کہ مجھے مدینہ شریف میں دفن کیا جائے چنانچہ اسے عارضی طور پر ایک عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کردیا جب اسے مدینہ شریف لے جانے کا انتظام ہو گیا اور اس کی قبر کھولی گئی تو اس کی قبر میں ایک اژدھا تھا جو اسے ڈس رہا تھا اس کو ہٹانے کیلئے گولیاں چلائی گئیں ہٹانے کی پوری کوشش کی گئی لیکن وہ نہیں ہٹااسی طرح اس کی قبر کو بند کردیا گیا آج بھی اس کی قبر عیسائیوں کے قبرستان میں ہے صاحبزادہ زبیر نے کہا کہ کوئی ایسا فیصلہ ہو جائے کہ آپ کی ہماری سب کی عاقبت درست ہو جائے اور قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بن جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ختم نبوت کے خلاف بات کر کے ہم اپنی عاقبت خراب کر بیٹھیں ”الحمد للہ“صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر صاحب نے جو رائے دی اور دیگر اکابرین کی بھی وہ ہی رائے تھی لہذا چیف جسٹس صاحب نے فیصلہ سنایا جس میں جتنی بھی متنازعہ شقیں تھیں ان سب کو ختم کرنے کا اعلان کردیا اور اس کیس کو ٹرائل کورٹ میں بھیجنے کا بھی اعلان کیا اللہ کا شکر ہے کہ 1974 ء کے بعد پچاس سالہ جشن کے موقعہ پریہ بہت بڑی کامیابی اللہ نے عطا فرمائی ہے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے اندر اتنی بڑی تبدیلی کی ہے کہ یہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو اہے اور یہ عاشقان مصطفےٰ ﷺ کی بہت بڑی کامیابی ہے اورحضور سرور کون ومکاں کا زندہ معجزہ ہے۔