19

قائد ملت اسلامیہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ کا آج 11دسمبریوم وفات ہے آپ کے حالات زندگی پرمعروف کالم نگار مجیب الرحمن شامی کا مکمل مضمون پڑھیں ۔

تمام پہلوؤں کا ممکنہ احاطہ کیا گیا ۔

قائد اہلسنّت علامہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی قادری رحمۃ اللہ علیہ11 دسمبر 2003ء بروز جمعرات 78 سال کی عمر شریف میں دنیا سے آنکھیں موند کر ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہوگئے۔ انہوں نے کٌل عمر 78 سال اور سیاسی عمر 40 سال پائی مگر سیاسی اور غیر سیاسی عمر میں انکاکردار مثالی رہا۔ ان کے وصال پر ایک اخبار نے سرخی جمائی کہ۔
’’محد سے لے کر لحد تک کردار ہی کردار‘‘
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار ہر ایک نے کیا ہے۔ مولانانورانی کی عوامی و سیاسی زندگی باقاعدگی سے 1970ء میں شروع ہوئی۔ اس لحاظ سے 4 اپریل 1970ء سے لے کر 11دسمبر 2003ء تک 33سال بنتے ہیں لیکن جسٹس منیر کی رپورٹ کے مطابق 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی نمایاں کردارہے۔ مولانانورانی رحمۃ اللہ علیہ 1949ء میں پاکستان آئے اور 1970ء سے پہلے بھی جزوی طور پر سیاست میں حصہ لیتے رہے۔
ایوب مرحوم کے دور میں ان کا نقطہ نظر ایوب خان کے خلاف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی محمد حسین نعیمی مرحوم کی طرف سے جمعیت علماء پاکستان کی تنظیم نو سنی علماء کے ایوب مخالف دھڑوں کا جامعہ نعیمیہ میں اجتماع غالباً 1968ء میں ہوا۔ اس میں بھی مولانا عبدالغفور ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کو جمعیت کا صدر بنانے کے لئے مولانا شاہ احمدنورانی کراچی سے لاہور تشریف لائے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی کے ساتھ روس کا دورہ اور افریقی ممالک میں جمعیت کی طرف سے مختلف اجتماعات کا انعقاد بھی ان کی سیاسی سرگرمیاں ہی شمار ہوں گی۔ میں نے ان ایام کو سات سال تصور کرکے حضر ت کی کل چالیس سالہ زندگی شمارکی ہے۔ اس چالیس سالہ دورمیں انہوں نے اپنی علمی‘ سیاسی‘ ذہنی‘ فکری اور دینی سرگرمیوں کے لئے دن رات کوایک کردیا۔
4 اپریل 1970ء کو امام شاہ احمد نورانی کی سیاسی خصوصیت یہ دیکھنے میں آئی کہ اس وقت جمعیت علماء پاکستان 6دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ تمام دھڑوں کے قائدین ایک دوسرے کی قیادت ماننے کو تیار نہ تھے۔ ان سب طبقات کو اس وقت کے سب سے بڑے عالم دین مفتی اعظم پاکستان علامہ سید ابوالبرکات نے ایک جگہ جمع تو کردیا تھا مگر آپ کی پیر عمری‘نقاہت اورخاموش طبعی صدارت کی متحمل نہ تھی۔ آپ کے حکم پر شارح بخاری علامہ سید محمود احمد رضوی نے مجمع میں موجود خوش پوش‘ ہشاش بشاش ،نورانی رنگت اور نورانی قدوقامت کے عالم دین مولانا شاہ احمد نورانی کو صدارت کی دعوت دی۔ پورے ہاؤس نے اس دعوت کی تائید کی۔ میرے نزدیک امام نورانی کی یہ پہلی سیاسی خصوصیت تھی جنہیں اختلاف کی باد سموم میں یکجہتی کی بادنسیم کا جھونکا قرار دیا گیا۔ چنانچہ مولانا نورانی نے اس جذبات اختلاف تضاد غم و غصے سے بھرے ہوئے اجلاس کو اپنی دانائی‘ حالات پر گرفت‘ انسانی نفسیات پر مکمل مہارت کے باعث یہ اجلاس نہ صرف یخ بستہ ہوا بلکہ مکمل اتحاد کی شکل میں ڈھل گیا۔
جمعیت علماء پاکستان کے تمام گروپوں کے قائدین نے استعفیٰ دیا اور مجلس عمل جمعیت علماء پاکستان کے نام سے سنی اتحاد قائم ہوا۔ اس کے کنونیئر علامہ سید محمود احمد رضوی قرار پائے اور اسی اجلاس میں امام الشاہ احمدنورانی کی قیادت میں چھ رکنی منشور ساز کمیٹی قائم ہوئی۔ اس کے ارکان یہ تھے۔
 
*مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی*علامہ سید محمود احمد رضوی*مولانا محمد حسن حقانی*مولانا غلام علی اوکاڑوی*مولانا محمد بنجش مسلم بی اے*مولانا غلام مہر علی
اس کمیٹی نے چار دن کی قلیل مدت میں جمعیت علماء پاکستان کا منشور تیار کیا۔ اس وقت سیاسی جماعتوں میں منشور بھاری بھر کم ابھر رہے تھے۔ دینی جماعتوں میں جماعت نفاذ اسلام کے سلسلہ میں کوئی مشترکہ منشوری اصطلاح متعارف نہ ہوسکی۔ مثلاً جماعت اسلامی نفاذ اسلام کی اصطلاح استعمال کرتی تھی۔ جمعیت علماء پاکستان نفاذ شریعت کہتی تھی۔ مگر امام شاہ احمد نورانی نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمعیت علماء پاکستان کا منشور اجمالی طورپر دو نکات پر مبنی دیا۔ یعنی۔
-1 مقام مصطفی ﷺ کا تحفظ
-2 نظام مصطفی ﷺ کا نفاذ
یوں نظام مصطفی ﷺ کی اصطلاح نفاذ اسلام کے سلسلہ میں پہلی مرتبہ متعارف ہوئی۔ 1977ء کے انتخابات اور ان کے بعد بھٹو کے خلاف تحریک میں پوری قوم نظام مصطفی ﷺ کی اصطلاح پر متفق ہوگئی اور بھٹو کے خلاف تحریک کا نام ہی تحریک نظام مصطفی ﷺ متعارف ہوا۔ چنانچہ اس کے بعد جتنے بھی دینی و سیاسی اتحاد قائم ہوئے نظام مصطفی کی اصطلاح کو ان میں بالادستی حاصل رہی۔ مثلاً ملی یکجہتی کونسل مختلف دینی مکاتب فکر کی غیر انتخابی اور غیر سیاسی اتحادی جماعت تھی۔ اس کے صدر بھی مولانا ہی تھے۔ اس کی بنیاد اسی اصطلاح نظام مصطفی پر ہی رکھی گئی۔ نوازشریف کے خلاف جونیجو مرحوم کی قیادت میں سہ جماعتی سیاسی اتحاد قائم ہوا جس میں مسلم لیگ جونیجو‘ جمعیت علماء پاکستان اور ائیرمارشل اصغر خان کی تحریک استقلال شامل تھیں۔ یہ اتحاد بھی ا نتخابی اور سیاسی تھا لیکن اس کی بنیاد بھی فقہ حنفی کی صورت میں نفاذ نظام مصطفےٰ تھا۔
جمعیت علماء اسلام اورجمعیت علماء پاکستان کا دو رکنی انتخابی اتحاد اسلامی جمہوری محاذ قائم ہوا۔ مولانا شاہ احمدنورانی اس کے صدر اور مولانا فضل الرحمن جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ بارہ بارہ رکنی دونوں جماعتوں میں سے چوبیس رکنی مجلس شوریٰ قائم ہوئی۔ میں اس کا رکن تھا۔ اس منشورکا اولین اور بنیادی نقطہ نظام مصطفی قرار پایا۔ متحدہ مجلس عمل قائم ہوئی تو امام نورانی اس کے تازیست صدر رہے۔ اس کی بنیاد میں آج بھی نظام مصطفی لکھا ہوا ہے۔ گویا امام شاہ احمد نورانی کی سیاسی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے سب کا رخ مدینہ کی طرف موڑدیا تھا۔
مولانا نورانی کی تیسری سیاسی خصوصیت آئین سازی تھی۔ بھٹو نے آئین سازی کے لئے اپنے وزیر قانون میاں محمود علی قصوری کی سرکردگی میں پچیس (25) رکنی آئین ساز کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی میں ظاہر بات ہے اکثریت پیپلز پارٹی کی تھی۔ اپوزیشن ارکان اسمبلی میں امام شاہ احمد نورانی بھی تھے۔ اس وقت قائد حزب اختلاف سردار شوکت حیات تھے۔ پیپلز پارٹی نے آئین ساز کمیٹی میں آئین کا جو مسودہ پیش کیا اس میں پاکستان کانام سوشلسٹ ڈیمو کریٹک ری پبلک پاکستان تجویز کیا گیا تھا۔ حزب اختلاف کی طرف سے حضرت قائد اہلسنّت نے اس کو مسترد کردیا اور پاکستان کا نام اسلامک ری پبلک ڈیموکریٹک پاکستان تجویزکیا مگر اپوزیشن کی بات آئین ساز کمیٹی نے تسلیم نہ کی۔ مسودہ اسمبلی میں پیش کردیاگیا۔ پیپلز پارٹی کو اسمبلی میں 2/3 اکثریت حاصل تھی۔ لیکن امام نورانی نے اسمبلی میں تاریخی تقریر فرماتے ہوئے کہا کہ۔
’’یہ آئین جو خوبصورت فریم میں سجاکر ہمارے سامنے پیش کردیاگیا ہے اس کو کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے‘ سوشلزم نہیں ہے۔ ہم اس آئین کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔ اگریہ آئین منظورکرلیا گیا تو ہم اس کو پھاڑ کر اسمبلی کے باہر چلے جائیں گے اور اس کے خلاف بھرپور جدوجہدکریں گے‘‘۔
آپ کے اس تقریر کے بعد اسمبلی کے حالات بدل گئے اور بالآخر حکومت کو اپنی اکثریت کے باوجود اپنا آئین تبدیل کرنا پڑا اور امام نورانی کا دیا ہوا آئین منظور ہوا۔ آج 1977ء کا آئین ہماری بقا‘ سلامتی اور ترقی و خوشحالی کا ضامن ہے۔ اس کی منظوری میں قائد اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی کردار ہے۔
 
مولانا شاہ احمد نورانی کی سیاسی زندگی ایک تہائی صدی پر محیط ہے۔ وہ پہلی بار 1970ء میں جمعیت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔مولانا 1973ء کے دستورکی تدوین کے موقع پر دستوری کمیٹی کے رکن بنائے گئے اوراس حیثیت سے ملک کے اس متفقہ دستورکی تشکیل میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دستور کو اسلامی بنانے کے لئے مولانا نے دو سو ترامیم پیش کیں۔ انہی دنوں مولانا شاہ احمد نورانی پاکستان کے سیاسی افق پر آفتاب بن کر ابھرے اوران کی سیاسی فہم و بصیرت کا ملک میں ہرسیاسی مکتب فکر کی طرف سے اعتراف کیا گیا کیونکہ مولانا کی سیاسی سوچ اورفکرکا محور نظریہ پاکستان اور حضرت قائدا عظم کے سیاسی تصورات و فرمودات تھے۔ انہوں نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا کہ وہ نظریہ پاکستان کی روشنی میں حضرت قائد اعظم کے فرمودات کے مطابق ملک میں اسلامی جمہوری نظام کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں۔ انہی کی مساعی سے 1973ء کے آئین میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے کی کوشش کامیاب ہوئی۔ مولانا شاہ احمد نورانی جمہوری اقدار کی سربلندی کے لئے ذوالفقار علی بھٹوکی بلامقابلہ وزیر اعظم بننے کی خواہش کے راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے حزب اختلاف کے فیصلے کے مطابق بھٹو کے مقابلے میں وزارت اعظمیٰ کا الیکشن لڑا۔ اگرچہ انہیں صرف 32 ووٹ ملے مگر ان کی جرات و بہادری کی ملک بھر میں داد دی گئی کہ انہوں نے اس وقت بھٹو کا مقابلہ کیا۔ جب کوئی دوسرا اس کے لئے تیار نہ تھا۔ پھر 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں قادیانیوں کو خارج از اسلام قرار دینے کی قرارداد پیش کرنے کاشرف بھی مولانا ہی کو حاصل ہوا۔
امام شاہ احمد نورانی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے کسی حکمران کو ملاقات کرنے کی درخواست نہیں کی اور زندگی بھر حکمرانوں سے ملنے کی کبھی خواہش پیدا نہ ہوئی۔ جب بھی حکمرانوں سے ملے ان کی دعوت پر ملے اور ایجنڈے پر گفتگو کی۔ بلکہ ایک دفعہ ضیاء الحق نے دعوت دی۔ ملاقات ہوئی بعد میں صدر مملکت نے کھانے کا کہا تو قائد اہلسنّت نے فرمایا کہ جنرل صاحب آپ نے ملاقات کی دعوت دی تھی کھانے کی دعوت نہیں دی تھی۔ ہم آپ کا کھانا نہیں کھاسکتے۔ قائد اہلسنّت کی یہ خصوصیت بھی عمر بھررہی کہ انہوں نے کبھی کسی حکمران سے ون ٹو ون ملاقات نہ کی۔ حکمرانوں سے جب بھی ملاقات ہوئی اپنے وفد کے ساتھ ہوئی ورنہ سیاست میں ون ٹو ون ملاقاتیں بھی سیاست کا حصہ ہوتی ہیں لیکن اس امر میں قائد اہلسنّت نے اپنی انفرادیت قائم کی۔ حضرت قائد اہلسنّت کی یہ بھی خصوصیت رہی کہ انہوں نے عمر بھر اقتدار طلب نہ کیا بلکہ وہ ہمیشہ اپنی ذات کی بجائے نظام مصطفےٰ ﷺ کو اقتدار میں لانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ اس کا مظاہرہ کئی مرتبہ ہوا۔
 
جس وقت کراچی میں ورلڈ اسلامک مشن کا دفتر کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کے مقابل یونی ٹاورمیں تھا۔ اس وقت اتفاق سے میں بھی کراچی گیا ہوا تھا۔ حضرت دفتر تشریف لائے تو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ لائن پر ایم کیو ایم کے الطاف حسین تھے۔ انہوں نے ملاقات کی درخواست کی‘ آپ نے اجازت دی کہ تشریف لے آئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد الطاف حسین بھاری بھر کم وفدکے ساتھ ورلڈ اسلامک مشن کے دفتر میں وارد ہوگئے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد الطاف حسین نے پیش کش کی کہ ایم کیو ایم جمعیت علماء پاکستان کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی کی بارہ سیٹوں کے مقابلہ میں کوئی امیدوارکھڑا نہیں کرے گی۔ آپ صرف اتنی مہربانی فرمائیں کہ ایم کیو ایم کی مخالفت نہ کریں۔ یہ ایک سیاستدان کے لئے بہت بڑی آفر ہے لیکن حضرت نے فوری جواب ارشاد فرمایا کہ الطاف بھائی آپ کی تشریف آوری کا شکریہ۔ آپ کی پیش کش کا بھی شکریہ مگر جمعیت علماء پاکستان کا کسی علاقائی یا لسانی پروگرام پر مشتمل سیاسی پروگرام نہیں ہے۔ اس کا پیغام صرف اور صرف نظام مصطفےٰ ہے۔ ہم تمام کی تمام سیٹیں بلا مقابلہ آپ کو دیتے ہیں آپ صرف اردو قومیت کی بجائے اسلامی قومیت کو اپنا منشور بنائیں۔ کیونکہ جمعیت کے نزدیک اردوکی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے۔ افغانستان‘ ایران اور دوسرے ممالک میں جو مسلمان زبانیں بولتے ہیں وہ بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی اردو ہے۔ اردو کی بنا پر کوئی بھائی بھائی نہیں بن سکتا۔ دیکھیے نہرو بھی اردو بولتا تھا میں ا ور آپ بھی اردو بولتے ہیں۔ توکیا نہرو ہمارا بھائی بن سکتا ہے؟ قومیت صرف اسلام پرہوتی ہے۔ آپ کا پروگرام چونکہ اس سے مختلف ہے‘ آپ اس میں تبدیلی کردیں ہم غیر مشروط آپ سے تعاون کریں گے۔ جواب میں الطاف حسین نے اردو قومیت چھوڑنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم جماعت اسلامی کو شکست دیناچاہتے ہیں۔ چونکہ اس زمانہ میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کے اختلافات بہت شدید تھے۔ الطاف حسین نے نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے جماعت اسلامی سے مقابلے کی بات کی۔ جواب میں قائداہلسنّت نے فر مایا کہ پہلے ہم قومیت کافیصلہ کرلیں اس کے بعد ہم جماعت اسلامی کے بارے میں فیصلہ کرلیں گے مگر الطاف حسین نے یہ تسلیم نہ کیا تو حضرت نے بھی صاف صاف فرما دیا کہ الطاف بھائی نتیجہ ہمیں معلوم ہے اس کے باوجود آپ کی لسانی قومیت کا مقابلہ کیا جائے گا اور آپ سے مصالحت نہیں کی جاسکتی۔ حضرت کی یہ جرأت ان کی ایمانی قوت اورسیاسی خصوصیت ہے۔
حضرت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ انہوں نے عمل صالح کو سیاست کا زیور بنادیا تھا۔ عمربھر ان کی نماز باجماعت قضا نہ ہوئی۔ بے وضو سفربھی نہ کیا۔ رمضان پاک میں تراویح کاکبھی ناغہ نہیں کیا اور تراویح اورشبینوں میں 64 سال مسلسل قرآن پاک سنایا اور پھر قرآن پاک سنانے میں ان کی خصوصیت یہ تھی کہ عمر بھر کسی مسجد سے قرآن پاک سنانے کا نذرانہ وصول نہ کیا۔
امام نورانی کی یہ خصوصیت سب سے نمایاں ہے کہ انہوں نے پیسے کو دھکیلا‘ دولت کو مسترد کیا مگر دولت ان کے پیچھے بھاگتی تھی۔ عمر بھر ان پر پیسے کا کبھی کوئی الزام نہ لگا۔ اسی طرح امام نورانی جب دنیا سے تشریف لے گئے ان کے کسی دشمن نے بھی ان پر کوئی الزام لگانے کی جرات نہ کی۔ ورنہ سیاست میں الزام کس پر نہیں لگتا؟ ہمارے سامنے اکابرین سیاست الزامات کے استعمار کے نیچے دبے رہے۔ مگریہ حقیقت ہے کہ امام شاہ احمدنورانی پرکسی کی پیالی چائے،پھوٹی کوڑی اورمالی معاونت کا کوئی الزام آج تک وجود میں نہیں آیا۔ یوں یہ بھی خصوصیت قائد اہلسنّت کی ہے کہ وہ خداکے فضل اور نگاہ مصطفی ﷺ کے طفیل تمام الزامات سے شفاف دامن لے کر دنیا سے چل دیئے۔
امام شاہ احمد نورانی کی مصروفیات‘ سفر کی کثرت‘ متحرک ذات کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ انہوں نے عمر بھر اپنی گاڑی نہیں خریدی بلکہ مجھے سلطان القلم علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ میں حضرت کے ساتھ ماریشس میں تھا۔ ایک نوجوان بلکل نئی گاڑی لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اورچابی پیش کی۔ حضرت نے پوچھا یہ کیا‘ عرض کی کہ حضور آپ سنی قوم کے قائد ہیں۔ قومی اسمبلی کے رکن ہیں آپ کے پاس گاڑی نہیں ہے۔ میںیہ گاڑی کا نذرانہ لے کر حاضر ہواہوں۔ بلکل نئی گاڑی ہے۔ قبول فرمائیں۔ علامہ ارشد القادری کے بقول حضرت نے اس سے فرمایا کہ آپ مجھے گاڑی یہاں دے رہے ہیں میں اس کو پاکستان کیسے پہنچاؤں گا؟ اس نے عرض کیا کہ پاکستان میں پہنچا دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا میں پٹرول کہاں سے ڈلواؤں گا؟ اس نے عرض کیا میں اس کا انتظام بھی کردیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا میں ڈرائیور کہاں سے رکھوں گا؟ اس نے عرض کیا اس کی تنخواہ بھی میں دوں گا۔ آپ نے فرمایا میرے گھر کے ساتھ کوئی گیراج نہیں ہے میں گاڑی کھڑی کہاں کروں گا؟ اس نے عرض کیا میں گیراج بھی لے دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا نہیں میاں جب گاڑی میرے گھرمیں ہوگی تومیرے بچے بھی اس کو استعمال کریں گے اور آپ دے رہے ہیں جمعیت کی محبت سے۔ یہ امانت میں خیانت ہے۔ اس طرح آپ نے مفت کی گاڑی کو قبول نہ فرمایا اور زندگی بھر دوستوں کی گاڑیوں یا ٹیکسیوں پر سفر فرمایا۔ یوں قائد اہلسنّت کی بے شمار خصوصیات ہیں جنہیں احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں