7 مارچ 1977ءکو پاکستان میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر ”جُھرلو“ کا وہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا جس میں پوری قوم کے سر ندامت سے جھک گئے۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف حزب اختلاف نےتحریک شروع کردی۔1977ء کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے نتائج اپوزیشن جماعتوں نے یکسر مسترد کر دئیےتھے۔ پورے ملک میں دفعہ 144 اور ڈی پی آر کے نفاذ سےجمہوریت کا گلاگھونٹ دیا گیا۔کسی کی عزت وآبرومحفوظ نہ رہی۔ان پے درپے زیادتیوں سےپاکستانی قوم کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک اٹھا ۔شروع شروع میں تو یہ ایک انتخابی مہم تھی لیکن جوں جوں آگے بڑھتی گئی تو ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔ اور اس تحریک کو خوبصورت ایمان افروز اور جذبوں کو توانا کرنے والا نام دیا گیا تھا۔ یہ نام تھا ’’تحریک نظام مصطفی‘‘، اس نام کا ایک پس منظر تھا۔ یہ نام مولانا نورانی اپنی پوری سیاسی جدوجہد میں ہمیشہ وضاحت سے بیان کرتے رہے۔ 1974ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت کامیاب ہوئی اور قومی اسمبلی نے 1973ء کے آئین میں ترمیم کرکے قادیانیوں اور لاہوری گروپ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو مولانا نورانی نے قوم کو پیغام دیا کہ مقام مصطفیٰ کے تحفظ میں کامیابی کے بعد اب ہم ’’نظام مصطفیٰ‘‘ کے نفاذ کے لئے عملی جدوجہد کریں گے۔ 1977ء کے الیکشن کی مہم دیکھتے ہی دیکھتے تحریک نظام مصطفیٰ میں ڈھل گئی آخر کار یہ تمام تر جدوجہد تحریک نظام مصطفی کے نام سے سیلاب کی طرح ملک کے طول و عرض میں بہہ نکلی۔ پاکستان کا ہر شہری، دیہاتی، جوان، بوڑھے، بچے، عورتیں سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے۔، ہر ایک کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ”نظام مصطفی کا نفاذ“ اور ایک ہی مطالبہ تھا، حکومت مستعفی ہو جائے۔ اس جائز اور متفقہ مطالبہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی بجائے نہتے اور مجبور عوام کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اقتدار کی کرسی سے چمٹے ہوئے اس عفریت نے عوام کے خون سے اپنی پیاس بجھانا شروع کردی۔ جب بھٹو حکومت کی درندگی و ظلم آسمانی حدوں کو چھونے لگا تو علماءامت نے اس ظلم و تشدد کو بند کرانے کے لیے صدائے احتجاج بلند کی اور وہ محراب و منبر سے اُٹھ کر بنفس نفیس میدان عمل میں نکل آئے۔ 31 مارچ 1977ءکو نظام مصطفی کے علمبردار علماءنے نہتے و بے گناہ شہریوں پر ظلم و تشدد کے خلاف مسلم مسجد لاہور سے نماز ظہر کے بعد ایک پُرامن احتجاجی جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ یہ جلوس نئی انارکلی سے گذر کر جی پی او سے ہوتا ہوا مسجد شہدا شاہراہ قائد اعظم پر اختتام پزیر ہونا تھا لیکن حکومتی فشطائیت نے اسے خون آلود احتجاج میں تبدیل کردیا ۔
پاکستان قومی اتحادنے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف احتجاج کا ایک ملک گیر احتجاجی سلسلہ شروع ہو گیایوں اس ملک میں سیاسی حالت ابتر ہو گئے پاکستان پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات کے دور ہوئے جس کامیابی تک نہ پہنچ سکے بالآخر اسی ملکی بے امنی کو جواز بنا کر جنرل محمد ضیاء الحق نے4جولائی 1977ء کی شام ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا ۔انھوں نےآئین کو معطل نہیں کیا بلکہ یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلےکا مقصد صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کرواناہے۔مارشل لاءکے نفاذ کے بعدذوالفقار علی بھٹوپر ایک شہری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، جس کی پاداش میں ہائیکورٹ نےانھیں سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کی۔ یوں4اپریل1979ءکو ذو الفقار علی بھٹو کوپھانسی دےدی گئی۔جنرل ضیاء الحق 90دن میں انتخابات کا وعدہ ایفاء نہ کرسکے اور گیارہ سال ڈکٹیٹر حکومت ملک میں قائم رہی جس کے باعث نظام مصطفے ﷺ کی تحریک اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں