تحریک ناموس رسالت ﷺ
پاکستان کے حکمرانوں نے این۔ جی۔ اوز کی خوش نودی، مغربی ایجنٹوں کی نازبرداری اور مغربی آقاؤں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے قانون ناموس رسالت ﷺکو غیر مؤثر کرنے کی کوششیں شروع کردیں، جس کی بناپر ملک میں کئی ایسے اقدامات کیے گئے اور کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جو اس بات کی غمازی اورچغلی کھارہے تھے کہ اس ملک میں کچھ ہونے والا ہے، جن کی بناپر علمائے کرام اور مسلمانانِ پاکستان میں اضطراب، بے چینی اور فکرمندی کا پایاجانا ایک فطری امر تھا، پیپلزپارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی بیرونی دباؤ کی بناپر اس قانون کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تھی، پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شریں رحمان نے قانون ناموس رسالت کا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں جمع کردایا تو دوسری جانب گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ملعونہ آسیہ کے ساتھ جیل میں پریس کانفرنس کر کے قانون ناموس رسالت کو ظالمانہ قانون قرار دیتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ۔ لہذا 30 نومبر2010ء کو کراچی میں جمعیت علماء پاکستان کی دعوت پر ملک کی مقتدر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت ﷺ کانفرنس ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر کی صدارت میں منعقدہوئی جس میں قانون ناموس رسالت ایکٹ میں ممکنہ ترمیم اور گسٹاخ رسول ملعونہ آسیہ کی ماوراہ عدالت رہائی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیاگیا ۔ابھی گورنر پنجاب سلمان تاثر کی آسیہ ملعونہ کے ساتھ جیل میں قیدی کے ساتھ پریس کانفرنس سے لگائی ہوئی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ سلیمان تاثر نے قانون ناموس رسالت کو کالا قانون کہہ کر جلتی پر تیل کا کام کردیا۔جس سے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کے جذبات پیدا ہوئے جس کے خلاف4دسمبر کو ملک گیر یوم احتجاج منایا گیاپاکستان کے طول وعرض میں مظاہرے ہوئے ریلیاں نکالی گئیں ملک کی سیاسی مذہبی جماعتوں نے حکومت پر واضح کردیا کہ اگر اس نے قانون ناموس رسالت میں ترمیم کی تو پاکستان کے غیور عوام اینٹ کا جواب پتھرسےدیں گے۔ جس سے تمام دینی و سیاسی جماعتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی حالات کی نذاکت کو بھانپتے ہوئے مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان کی سپریم کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ پیر عتیق الرحمن فیض پوری کی میزبانی میں اسلام آباد میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کا انعقاد ہواجس میں ملک کی مقتدر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر و مسالک سے وابستہ مدارس دینیہ کے سربراہ نے بھی شرکت کی اور ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر کی قیادت میں تحریک ناموس رسالت کا پلیٹ فارم تشکیل دیااور تحریک کا لائحہ عمل ترتیب دینے کےلئے سات رکنی اسٹیرنگ کمیٹی تشکیل دی اگئی ور فیصلہ کیا کہ تحریک کے لائحہ عمل کا اعلان عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے 15 دسمبر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں کیاجائے گا۔15 دسمبر کو عالمی مجلس ختم نبوت کی جانب سے جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس میں جمعیت علماء پاکستان اور مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان کی جانب سے ہونے والی آل پارٹیز کانفرنسوں کے فیصلوں کی توثیق کی گئی اور24دسمبر کو ملک گیر یوم احتجاج منانے ،31دسمبر کو ملک گیر ہڑتال اور 9جنوری کو کراچی میں احتجاجی جلسہ عام کا اعلان کیا گیا24 دسمبر کو عاشق رسول نے ملک بھر میں مساجد کے باہر احتجاج کرکے اپنے ایمانی جذبہ کا بھرپوراظہار کرتے ہوئے عظمت مصطفےٰ ﷺ کے تحفظ کےلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عزم کیا31دسمبر کو پورے ملک میں پر امن ایمانی ہڑتال ہوئی عوام نے خود رضاکارانہ طور پر اپنا کاروبار بند کر کے حضور اکرم ﷺ سے اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا عملی مظاہرہ کیاجس سے حکومت کے ایوانوں مین ہل چک مچ گئی اورحکومتی وزراء زبانی جمع خرچ پر ترمیم نہ کرنے کا اعلان کرنے لگے۔
4جنوری2011کو لمحہ آپہنچا کہ جب ایلیٹ فارس کے جوان ملک ممتاز حسین قادری نے قانون ناموس رسالت کو کالا قانون کہنے کی پاداس میں گورنر پنجاب سلمان تاثیرکو اسلام آباد میں 27گولیاں مارکرقتل کردیا یہ ایسا وقت تھا جب بڑی بڑی سیاسی ،مذہبی شخصیات نے اپنے موبائیل فون بند کردئیے تھےجن میں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ فضل کریم بھی شامل ہیں اس وقت اگر کوئی آواز بلند ہوئی تو وہ تحریک ناموس رسالت ﷺ کے محاٖفظ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیرکی تھی جنہوں نے جیئو کے پروگرام لیکن میں ثناء بچہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ گورنر پنجاب کے قتل پر کسی کوکوئی افسوس نہیں بلکہ عوام تو میٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں یہ واضح اعلان تھا جس کی روشنی میں 500سے زائد علماء نے گورنر پنجاب سلمان تاثیرکا جنازہ نہ پڑھانے کا فتویٰ جاری کیا۔ 5000ہزار سے زائد وکلاء نے ملک ممتاز حسین قادری کا مفت مقدمہ لڑنے کا اعلان کر کے اس عاشق رسول کی عظمت کو سلام پیش کیاپورے ملک میں ہیجانی کیفیت تھی8جنوری کو آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینے کےلئے تحریک ناموس رسالت میں شامل جماعتوں کے قائدین کا اجلاس ہوا اور 9جنوری 2011ءکو مزار قائد سے تبت سینٹر تک عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر امڈ اآیا اس تاریخی فقید المثال احتجاج میں عاشقان رسول ﷺ نے غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے کا عزم کرتے ہوئے حکمرانوں کو متنبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے ایمانی جذبات سے نہ کھلیں اس احتجاجی جلسے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی۔ کراچی کے عوام نے ہر ملی تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ تحریک ناموس رسالت میں بھی ان کے ایمانی جذبے نے حرارت پیدا کی اور سیکولر عناصر جو کراچی پر اپنا حق جتاتے ان کی نیند حرام ہو گئیں اور وہ اس تاریخی جلسے کی خفت مٹانے کےلئے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ دینی جماعتیں سندھ پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں تو کسی نے حکومتی مراعات حاصل کرنے کےلئے حکومتی ترجمان کا کردار ادا کیاسنی اتحاد کونسل جو تحفظ مزارات کی علمبردار بن کر مسلم لیگ نواز کو بلیک میل کرنے میں مصروف تھی یکایک تحریک ناموس رسالت کی احتجاجی جدوجہد کا تعاقب کرنے لگی اور اسی سنی اتحاد کونسل کے سیکریٹری جنرل حاجی حنیف طیب صاحب گورنر سندھ عشرت العباد خان اور وزیر داخلہ رحمن ملک کی ایماء پر سرکاری ترجمان بن کر قانون ناموس رسالت میں ترمیم نہ کرنے کی وضاحتیں پیش کرنے لگے تاکہ ناموس رسالت کی تاریخی جدوجہد کو سبوتاژ کیا جاسکے اور جب میڈیا کےنمائندوں نے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ سے ان کے سیکریٹری جنرل کی وضاحت چاہی تو انہوں نے کوئی جواب دینے کی بجائے موبائیل بند کرنے میں عافیت سمجھی جس سے اس اتحاد کونسل کی قانون ناموس رسالجےتت کے معاملے پر سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ان کا اصل مقصد قانون ناموس رسالت کا تحفظ نہیں بلکہ تحریک ناموس رسالت کا تعاقب اور انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھاکر کریڈٹ لینے کے سوا کچھ نہیں رہا تحریک ناموس رسالت کے قائدین نے تمام ترسازشوں کے باوجود اپنی جدوجہد کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا اور ہر جمعہ کو مساجد کے سامنے احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا 30جنوری 2011ءکوداتا کی نگری لاہور میں تحفظ ناموس رسالت مارچ کا اعلان کرکے تحریک کے دائرہ کو مزید وسیع کردیا اور تحریک ناموس رسالت کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیرنے تحریک کے دیگر قائدین سے مشاورت کے بعد صدرمملکت آصف علی زرداری صاحب اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو علیحدہ علیحدہ خطوط لکھے جس میں ان کا دینی و ایمانی فریضہ یادلاتے ہوئے تحریک کے چار نکاتی ایجنڈے پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا 30 جنوری کو اہلیان لاہور نے ناموس رسالت مارچ میں شرکت کر کے لاہور کی تاریخ کے عظیم الشان احتجاج کی تاریخ رقم کی تحریک کے قائدین نے حضرت داتا علی ہجوری کو گواہ بناتے ہوئے عظمت مصطفے ﷺ کے تحفظ کی جدوجہد کو آخر دم تک جاری رکھنے کا عزم کیا اور 18فروری کو پشاور میں احتجاجی ریلی کے انقعاد کا اعلان کردیاکراچی کے بعد لاہور میں فقید المثال تاریخی مارچ نے حکومتی صفوں میں اضطراب پیدا کردیا ایوان اقتدار لززنے لگا اس دوران امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے دوپاکستانی نوجوانوں کو گولی مارکر اور ایک کو اپنی گاڑی تلے کچل کر ہلاک کردیا عوام کے جذبات جو پہلے ہی قانون ناموس رسالت میں حکومت کی جانب سے ترمیم کرنے کے مذموم عمل کے خلاف مضطرب تھے ریمنڈ ڈیوس نے اس میں مزید اضافہ کردیا حالات حکمرانوں کے قابو سے باہر ہو چکے تھے اس ے قبل کے قوم تنونس اور مصر کی طرح حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی وزارت قانون کی سمری پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نےقانون ناموس رسالت میں ترمیم نہ کرنے کے احکامات صادر کرکے ملک کو سنگین نقصان سے بچا لیااور متعلقہ وزارتوں کو ہدایات جاری کردیں جس کے نتیجہ میں شیری رحمان نے اپنا بل واپس لے لیاان حکومتی اقدامات کی روشنی میں تحریک ناموس رسالت میں شامل جماعتوں کا سربراہی اجلاس منصورہ لاہور میں ہوا جس میں وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے احکامات کا جائزہ لیا گیااور اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تحریک ناموس رسالت کے احتجاجی پروگرام کو منسوخ کرنے اور تحریک ناموس رسالت کے پلیٹ فارم کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیاجس کا اعلان تحریک کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک صرف اور صرف تحفظ ناموس رسالت ﷺ کےلئے تھی لہذا حکومت نے ہمارے چار نکاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے ہوئے قانون ناموس رسالت میں ترمیم نہ کرنے کے احکامات صادر کردئیے ہیں لہذا ہم احتجاجی تحریک منسوخ کرنے اور تحریک ناموس رسالت کے پلیٹ فارم کو برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہیں اگر حکومت نے کسی مرحلے پر قانون ناموس رسالت میں ترمیم کا مذموم عمل کیا تو تحریک ناموس رسالت کے پلیٹ فارم سے ہی جدوجہد کی جائے گی۔
یوں30نومبر 2010ء عبداللہ شاہ غازی کے مسکن کراچی میں شروع ہونے والی تحریک ناموس رسالت تقریبا ڈھائی ماہ کی طویل جدوجہد کے بعد داتا کی نگری لاہور میں پائیہ تکمیل کو پہنچی اس دوران تحریک ناموس رسالت کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کےلئے لادین قوتوں اور سیکولر عناصر نے ہی نہیں بلکہ حکومتی پروردہ مذہبی شخصیات اور تنظیموں نے بھی ایڈی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح اس تحریک کو ختم کیا جاسکے کسی نے سیاسی ایجنڈا قرار دیا تو کسی نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کےلئے راہ ہموار کرنے کی کارستانی کہا کئی تو اس حد تک آگے نکل گئے کہ انگی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھا نے کےلئے سنیت کے ٹھکیدار بن بیٹھے بلکہ حکومتی مفادات میں تمام حدود پار کر کے سنی اتحاد کونسل کے سیکریٹری جنرل حاجی حنیف طیب صاحب نے سرکاری ترجمان کا کردار ادا کرتے ہوئے قانون ناموس رسالتﷺ میں ترمیم کے حکومتی اقدامات سے ہی انکار کردیا کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جناب بقول آپ کے حکومت ترمیم نہیں کرنا چاہتی تو سنی اتحاد کونسل کیونکر تحریک ناموس رسالت کی جدوجہد کا تعاقب کرتی رہی ؟
تحریک ناموس رسالت کی خالص ایمانی جدوجہد پر مخالفین نے کھل کر تنقید کی دانشوروں اور اینکرز نے سیاسی ایجنڈے سے تعبیر کیا لیکن تحریک ناموس رسالت کے قائدین نے ہمت نہ ہاری بلکہ خوش دلی کے ساتھ مخالفین کے چلینجوں کو قبول کیااور ہر بار اپنی غیر سیاسی ایمانی جدوجہد کے عزم کا اعادہ کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ تحریک ناموس رسالت کا ایجنڈا صرف اور صرف قانون ناموس رسالت میں ترمیم کے مذموم عمل کو روکنا ہے ۔
تحریک ناموس رسالت کی اس تاریخی کامیابی نے سیکولر اور لادین قوتتوں کی نیندیں حرام کردیں لہذا وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئے پھر سے سرگرم ہوگئے وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کا قتل بھی اسی سازش کا نتیجہ تھاکیونکہ یہ لادین عناصر بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کےلئے تحریک ناموس رسالت کو بدنام کرکے قانون ناموس رسالت کے معاملے کو پھر سے ہوا دینے کی کوشش کی اور شہباز بھٹی کے قتل کو جواز بناکر دینی جماعتوں کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے پر عمل شروع کردیا
تحریک ناموس رسالت کی جدوجہد نے ثابت کردیا کہ اگر قوم کسی ایک مقصد پر متفق ہوجائے تو اپنے مثالی اتحاد اور پر امن احتجاج کے ذریعے حکمرانوں کے ظالمانہ اقدامات کا خاتمہ کرواسکتی ہے پاکستان اس وقت جن اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے عوام معاشی اور معاشرتی بدحالی کا شکار ہیں مہنگائی ،بےروزگاری،کرپشن ،بدامنی ،لاقانونیت،دھشتگردی جیسے دل ہلادینے والے مسائل کا انبار لگا ہے یہ وہ مسائل ہیں جو قوم کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ ملک کو بھنور سے نکالنے کےلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر استحصالی نظام سے نجات دلائیں ۔