تحریک ختم نبوت ﷺ

 تحریک ختم نبوتﷺ

ختم نبوت ﷺ اسلام کا متفقہ، اساسی اور اہم ترین عقیدہ ہے۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدےپر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اگر اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سا بھی رخنہ پیدا ہو جائے تو ایک مسلمان نہ صرف اپنی متاعِ ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ اپنی بدقسمتی سے وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے بھی یک قلم خارج ہو جاتا ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی، غیر تشریعی، ظلی، بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ کافر، مرتد، زندیق اور واجب القتل ہے۔
قرآن مجید میں تقریباً سو آیات اور دو سو سے زائداحادیث مبارکہ میں ختم نبوت کا ذکر پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے ۔عقیدۂ ختم نبوت انسانیت پر ایک احسان عظیم ہے ۔مسلمانوں کا اجتماعی عقیدہ ہے کہ حضورسرور کائنات ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺکے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قرآن کریم آخری آسمانی کتاب اور اُمت محمدیہ آخری اُمت ہے ۔ اسلام کے اسی اساسی عقیدے پر ہر مسلمان کا ایمان ہوناضروری ہے۔ اُمت کا اس با ت پر بھی اجماع ہے کہ ختم نبوت کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
آپ ﷺکی حیات ظاہری سے آج تک سارے مسلمان اسی عقیدےپر قائم ہیں ۔ قادیانیت، اسلام کے خلاف سازش اور نبوت محمدی ﷺ کے خلاف بغاوت ہے۔ حضور سرور کائنات ﷺ کی حیات طیبہ میں مسیلمہ کذاب،اسود عنسی، مختار ثقفی اور سجاح بنت حارث نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا، مگر ذلت و رسوائی سے ہمکنار ہوئے ۔ اُمت مسلمہ نے سرکارِدو عالم ﷺ کو تمام تر عظمت و شان کے ساتھ تمام انبیاء و رسولوں کا امام و سردار اور نبی آخر الزماں تسلیم کیا۔
یومِ تحفظ ختمِ نبوت ہماری قومی اور ملّی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے، سامراجی قوتوں نے حضور سرور کائنات ﷺ کی عظمت و محبت کو مسلمانوں کے دلوں سے ختم کرنے کے لیے عقیدہ اجرائے نبوت کو ایک مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مرزا قادیانی کو معاذ اللہ نبی کی صورت میں پیش کیا اور اس طرح سادہ لوح مسلمانوں کوصراط مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کی۔ صلحائے اُمت اور علماء و مشائخ نے متحد ہو کر ان باطل عقائد کی بیخ کنی کے لئے ہر محاذ پر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں دندان شکن جواب دیا۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں ختم نبوت کا صحیح مفہوم اپنی تالیفات ، تصانیف اور بیانات کے ذریعے واضح کر کے اُمت مسلمہ کی صحیح ، فکری، علمی اور اعتقادی رہنمائی کی اور جھوٹے مدعیان نبوت کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنایا اور عملی جہاد کرتے ہوئے اس فتنے کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔ 
ان اکابر اُمت میں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ، اعلیٰ حضر ت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ ، امیر ملت پیر جماعت علی شاہؒ علی پوری، حضرت مخدوم سید شوکت حسین گیلانی ؒ، مولانا نواب الدین مدراسی ؒ،علامہ سید ابوالحسنات قادری ؒ ، علامہ سید ابوالبرکات قادری ؒ ، حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی ؒ ، حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ ،حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ؒ، حضرت صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ ؒ، مولانا عبدالستار خان نیازی ؒ، علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ ، صاحبزادہ محمود شاہ گجراتی ؒ، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ؒ ، علامہ عبدالغفور ہزاروی ؒ ، مولانا محمد بخش مسلمؒ، مولانا غلام محمد ترنمؒ، علامہ شاہ محمد عارف اللہ قادری ؒ، حضرت مولانا حامد علی خان ؒ ، صاحبزادہ سید افتخار الحسن ؒ ، صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرق پوری ؒ، علامہ سید محمود احمد رضویؒ اور جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کے اسمائے گرامی خصوصیت کے ساتھ  قابل ذکر ہیں۔
1953ء کی تحریک ختم نبوت ﷺ:
قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء کو کوئٹہ کے ایک اجلاس میں مرزا محمود نے اعلان کیاکہ ہم  1952ء کے اندراندر بلوچستان کو احمدی صوبہ بنادیں گے۔‘‘ اس کا یہ اعلان مسلمانان پاکستان کے اوپر بجلی بن کر گرا تو علماء نے اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی کہ اس فتنہ کامقابلہ کرنے کے لیے ایک مستقل جماعت ہونی چاہیے۔ قادیانی جماعت کی حمایت برطانیہ، روس، اسرائیل، فرانس، امریکا سمیت تمام پاکستان  مخالف قوتیں کررہی تھیں۔
18جنوری 1953ء کو تمام مکاتب فکر کے علماء اور مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن میں مجلس تحریک تحفظ ختم نبوت قائم کی گئی۔جس میں علامہ سید ابوالحسنات قادری کو صدر نامزد کیا گیا ۔ اس کنونشن میں طے پایا کہ اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے مطالبہ کیا جائے کہ ایک ماہ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور وزیر خارجہ ظفر اللہ خان سمیت کلیدی عہدوں پر فائز مرزائیوں کو برطرف کیا جائے، ورنہ سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔ اس وفد سے ملاقات میں علامہ ابوالحسنات محمد احمدقادری ، مولانا عبدالحامد بدایونی ،صاحبزادہ سید فیض الحسن،مولانا محمد بخش مسلم ، مولانا شاہ احمد نورانی ،مولانا احتشام الحق تھانوی ، شیخ حسام الدین ، ماسٹر تاج دین انصاری ، مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش اور دیگر اکابر موجود تھے۔
 
تحریک ختم نبوت 1953ء کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس منیر کی انکوائری رپورٹ میں درج ہے کہ مسلم لیگ کی صوبائی کونسل کے اجلاس منعقدہ 12جون 1952ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد علامہ سید احمد سعید کاظمی ممبر صوبائی مسلم لیگ کونسل نے پیش کی تھی ۔ اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ’’چونکہ قادیانی بالاتفاق خارج ازاسلام ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور حکومت کو اس اعلان میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ۔ چوہدری ظفرا للہ خان قادیانی ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہیں ۔ اس لیے پنجاب صوبہ مسلم لیگ کونسل کو حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ انہیں اپنے عہدے سے فوراً برطرف کر دیا جائے اور ان کی جگہ کوئی قابل اعتبار مسلمان وزیر خارجہ مقرر کیا جائے ‘‘۔ اسی طرح کی ایک اور قرارداد 14جولائی1952ء کولاہور میں پنجاب صوبہ مسلم لیگ کونسل کی مجلس عاملہ میں پیش کی گئی ۔جس کے محرک قاضی مرید احمد اور مؤید صاحبزادہ سید محمود شاہ گجراتی تھے ۔
1953ء میں تحریک ختم نبوت کے قائد غازی کشمیر علامہ سید ابوالحسنات قادریؒ( خطیب جامع مسجد وزیر خان لاہور) تھے ۔ آپ حضرت مولانا دیدار علی شاہ الوریؒ کے فرزند اکبر تھے ۔ آپ جمعیت علمائے پاکستان کے پہلے مرکزی صدر کی حیثیت سے 9مارچ 1949ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں پیش کی جانے والے قرار داد مقاصد کے مؤسسین میں شامل ہیں ۔ 1953ء میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے علامہ سید ابو الحسنات قادری کو تحریک تحفظ ختم نبوت کا قائد تسلیم کیا ۔ اس تحریک کی قیادت کرتے ہوئے آپ دیگر علماء کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور ایک سال تک حیدرآباد اور پھر سکھر سینٹرل جیل میں نظر بند رہے اور شدید گرمی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اس کے بعد آپ کو سکھر سینٹرل جیل سے لاہور منتقل کر دیا گیا ۔ جہاں وہ عدالت کے رو برو پیش ہوئے ۔ جیل میں مولانا کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ ان کے اکلوتے فرزند مولانا امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کو تحریک ختم نبوت میں بھرپور حصہ لینے پر سزائے موت سنا دی گئی ہے تو مولانا نے نہایت استقامت سے فرمایا ’’اے اللہ ! میرے خلیل کی قربانی کو قبول فرما ‘‘اس فقرے میں آپ کا صبر و شکراور تسلیم و رضا کا عکس پوری طرح جھلکتا ہے ۔
مولانا عبدالحامد بدایونی نے تحریک پاکستان کی طرح تحریک ختم نبوت میں بھی بھر پور حصہ لیا ۔ تحریک کے دوران ملک کے طول و عرض کے دورے کیے اور فروری 1953 سے جنوری 1954 تک کراچی اور سکھر کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔مولانا عبدالحامد بدایونی اور مفتی صاحب داد خان نے 1951 ء میں کراچی کے اس تاریخی اجلاس میں جمعیت علمائے پاکستان کی نمائندگی کی جس میں اسلامی دستور کے نفاذ کے سلسلے میں علماء کے متفقہ 22نکات مرتب کیے گئے تھے۔ تحریک ختم نبوت میں مجاہد ملت مولانا محمد عبدالستار خان نیازی کی خدمات روز روشن کی طرح واضح ہیں ۔ آپ نے پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، تحریک پاکستان ، تحریک نفاذ شریعت، 1953ء اور 1974ء کی تحاریک ختم نبوت، تحریک بحالی جمہوریت ، تحریک نظام مصطفیﷺ اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کے پلیٹ فارم سے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ۔
مولانا عبدالستار خان نیازی نے 28فروری 1953ء کو جامع مسجد وزیر خان لاہور کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر تحریک ختم نبوت کا آغاز کیا ۔ آپ ان دنوں پنجاب اسمبلی کے ممبر تھے ۔ آپ نے پنجاب اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف قرار داد پیش کرنے کا پروگرام بنایا، لیکن اس سے پیشتر ہی آپ کو شاہی قلعہ لاہور میں نظر بند کر دیا گیا ۔اس کے بعد 9اپریل کو جیل بھیج دیا گیا 16اپریل سے 25اپریل تک فوجی عدالت میں مقدمہ چلتا رہا ۔ بالآخر 7مئی کو فوجی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنا دیا ۔ بعد میں مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی سمیت عالم اسلام کے عظیم اکابر کے بھر پور احتجاج اور عالمی دبائو کے تحت سزائے موت کو عمر قید بامشقت میں بدل دیا گیا۔مولانا نیازی7مئی سے 14مئی تک پھانسی کی کوٹھڑی میں مقید رہے ۔ 29اپریل 1955ء کو ضمانت پر رہائی ملی، اس طرح آپ دوبرس سے زائد جیل میں رہے ۔
پاکستان میں ہر مکتبہ فکر نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے تحریک تحفظ ختم نبوت حصہ لیا۔جس میں بڑوں سے لے کر بچوں تک تمام نےبھر پور حصہ لیا۔1953میں ۔ تحریک ختم نبوت اپنے زوروں پرتھی ۔ عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو کافر قرار دو اور اس کے لیے لوگ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھے۔ وزیرخارجہ ظفراللہ قادیانی اور جنرل اعظم نے انتظامیہ اور فوج کی مدد سے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی لیکن لوگوں کا جذبہ عروج پر تھا ۔ روزانہ سینکڑوں لوگ سڑکوں پر گولیاں کھا کر شہید تو ہو جاتے لیکن پھر بھی اپنے آقا ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ مارنے والوں کو کافر قرار دینے کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوتے تھے ۔ بڑے تو بڑے بچے تک اس تحریک کی خاطر جان قربان کرنے کو تیار تھے ۔ایک دن ایک دس بارہ سال کا بچہ بستہ لٹکائے اسکول جانے کے لیے نکلا۔ سڑک پر پہنچا تو لوگوں کو ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے اور فوج سے مار کھاتے دیکھا ۔ نہ جانے اچانک کیا ہوا کہ وہ خود بھی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگانے لگا ۔ اسی اثنا میں ایک فوجی کی اس پر نظر پڑ گئی اس نے آکر اس بچے کو پکڑ لیا اور کہا کہ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہو چلو کان پکڑ لو ۔ بچے نے خاموشی سے کان پکڑ لیے ۔ فوجی اسے کہنے لگا کہ بتاؤ تمہاری اس حرکت پر تمہیں کتنا ماروں ۔ بچے نے کان چھوڑ کر فوجی کی طرف دیکھا اور مضبوط لہجے میں کہنے لگا اتنا مارو جتنی مار تم روز محشر کھا سکو ، یاد رکھو میں تو آج تمہاری مار برداشت کرلوں لگا لیکن محشر کے دن تم میرے رب کی مار برداشت نہیں کرسکو گے فوجی یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا ۔ ایسے ہوگیا جیسے اس کے بدن میں جان نہ رہی ہو ، بچے نے اپنا بستہ اٹھایا اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا اسکول کی طرف روانہ ہوگیا اور وہ فوجی اسے بت بنا کھڑا دیکھتا رہا ۔ اس طر ح کی سیکڑوں ایمان افروز داستانیں تاریخ کے صفحات میں درج ہیں ۔سچ ہے جذبہ ایمانی اور حب رسول ﷺ جب کسی کے دل میں سما جائے تو وہ بڑے سے بڑے ظالم کےسامنے کھڑے ہونے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔

تحریک ختم نبوت 1974ء

7ستمبر 1974ء کا دن ہماری قومی اور ملی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے، اس دن مسلمانوں کے دیرینہ مطالبے پر اس وقت کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو آئینی اور پارلیمانی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ کیا ۔یہ یادگار فیصلہ مسلمانوں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ تھا ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تاریخی قرار داد پیش کرنے کا اعزاز جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی کو حاصل ہوا۔ 

قومی اسمبلی میں قادیانی جماعت کے دونوں گروپوں ربوہ (احمد)گروپ اور لاہوری گروپ کو اپنے عقائد اورجماعتی موقف پیش کرنے کو کہا گیا ۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر پر گیارہ روز جرح کی۔ علامہ شاہ احمد نورانی ، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری اور مولانا سید محمد علی رضوی سمیت ممتاز مذہبی و سیاسی رہنمائوں نے پوری تندہی اور جاںفشانی سے قومی اسمبلی میں قادیانیت کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ان تمام امور میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا سید ابو ذر بخاری سمیت جید علماء اور اکابرین کی بھر پور معاونت حاصل رہی۔

وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے دور اندیشی اور اعلیٰ تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قرار داد کی مکمل حمایت کی۔ بالآخر قومی اسمبلی نے 7ستمبر 1974ء کو علامہ شاہ احمد نورانی کی اس تاریخی قرار داد کو متفقہ طور پر منظو رکر لیا ۔ جس میں قادیانیوں اور مرزائیوں کو مکمل طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس قرار داد کی توثیق بھی کی گئی اور اس طرح مسلمانوں کی ایک سو سالہ جدوجہدرنگ لائی اور یہ مقدس دینی تحریک کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہوئی۔