تاریخ

جمعیت علماء پاکستان کی تاریخ

 تحریک پاکستان اور علماء کا کردار

انگریزوں کے خلاف1857ء کی تحریک آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی1796ء-1861ء کے فتویٰ جہاد سے شروع ہوئی ،جس کی پاداش میں انگریزوں نے علامہ کوکالے پانی کی سخت سزا سنائی ،جہاں اس مردِ مجاہد نے انتقال کیا۔وہ علماء جنہوں نے انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگائی تھی انہیں تختہ دار پر کھینچ دیا گیایا قیدو بند میں انسانیت سوز اذیتیں دی گئیں ،ان سرفروشوں میں مولانا سید احمد اللہ مدراسی،مفتی کفایت علی کافی،مولانا عنایت احمد کاکوروی،مولانا فضل رسول بدایونی،مفتی صدرالدین آزردہ،مولانا رضی الدین بدایونی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی،مفتی سعید احمد بدایونی،مفتی لطف اللہ علی گڑھی ،مولانا عبدالجلیل شہید گڑھی،مولانا فیض احمد بدایونی، منشی رسول بخش کاکوری،مولانا رضا علی خان اور امام بخش صہبائی وغیرہ کے نام آتے ہیں جنہوں نے آزادی حریت کی شمع روشن کی ،پھر 1857ء کے بعد مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے اس قافلہ حریت کی فکری آبیاری فرمائی اور دو قومی نظرئیے کا شعور دیا۔

بنارس سنی کانفرنس

فاضل بریلوی کے بعد آپ کے خلفاء اور علمائے اہلسنت حجتہ الاسلام مولانا حامد رضا خان ،صدر الافاضل مولانانعیم الدین مراد آبادی،مفتی اعظم ہند مفتی محمدمظہر اللہ ،مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی،سید محمد محدث کچھوچھوی،مولانا امجد علی اعظمی،ابوالحسنات سید محمد احمد قادری،ابوالبرکات سیداحمدقادری،علامہ عبدالحامد بدایونی،امیر ملت پیر جماعت علی شاہ ،خواجہ قمر الدین سیالوی،مولانا سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبدالستار خان نیازی،مولانا عبدالغفور ہزاروی،مولانا ابراہیم علی چشتی،مولانا غلام محمد ترنم،مفتی سرحد ،مفتی شائستہ گل،پیر عبدالرحیم ٓٓآف بھرچونڈی شریف،پیر آف مانکی شریف،اور پیر آف زکوڑی شریف وغیرہ نے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیااور تحریک پاکستان میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کام کیاان اکابرین ’’اہلسنت کی یہ تاریخی جدوجہد ‘‘جماعت رضائے مصطفی ،شدہی،سنگھٹن تحریکیں ،تحریک خلافت ، تحریک ترک مولات وہجرت اور آل انڈیا سنی کانفرنس کے قیام 1925ء سے لے کر بنارس سنی کانفرنس 1946ء کے تاریخ ساز اجلاس اور 14اگست 1947ء قیام پاکستان تک پھیلی ہوئی ہے۔مگر بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعداقتدار کی غلام گردشوں میں کھیلے جانے والے کھیل نے پاکستان کو اس کے حقیقی نصب العین سے دور کردیا۔چنانچہ علامہ سید احمد سعید کاظمی نے آل انڈیا سنی کانفرنس کے احیاء کا بیڑا اٹھایا اور ابوالحسنات سید محمد احمد قادری کی توجہ ایک خط کے ذریعے اس صورتحال کی جانب مبذول کراتے ہوئے اہلسنت کو ایک امیر کی قیادت میں منظم اور مجتمع ہونے کی دعوت دی تاکہ مملکت خدادادپاکستان کو شریعت کے نفاذکے ذریعے صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنایا جاسکے۔اور اس سلسلے میں رلماء ومشائخ اہلسنت کا ایک نمائندہ اجلاس 26.27.28 مارچ 1948 ءکو طلب فرما یا۔

جمعیت علماء پاکستان کا قیام

علماء حق کے اس اجلاس کے نتیجے میں 28 مارچ 1948ء کو ملتان میں اہلسنت و جماعت کی نمائندہ تنظیم ’’جمعیت علماء پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جس میں سب سے پہلے ملک میں نظام مصطفیﷺ کے نفاذ کا مطالبہ کیاگیااور 7مئی 1948 ءکو’’ یوم شریعت ‘‘ کے عنوان سے پورے ملک میں تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ،1948ء میں جمعیت علماء پاکستان نے جہاد کشمیر میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے مجاہدین کیلئے عملی تعاون اور مالی امداد فراہم کی،جمعیت نے1949ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری1951ء میں علامہ عبدالعلیم صدیقی،مولانا عبدالحامدبدایونی، ابوالحسنات محمداحمد قادری وغیرہ کی قیادت میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کے ساتھ مل کر بائیس (22) نکات کی تیاری ،1953 ءکی تحریک ختم نبوت اور1956ء میں پاکستان کے آئین کی تدوین اور فقہ حنفی کو پبلک لاء بنانے کیلئے تاریخ سازخدمات انجام دیں اور اس جدوجہد کے دوران جمعیت کے رہنماؤں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر کے دارورسن کی روایت کو زندہ رکھا۔اس دوران جمعیت علماء پاکستان انتخابی سیاست سے دور رہ کر مذہبی اور سماجی میدانوں میں مصروف العمل رہی.

جمعیت علماء پاکستان کی سیاسی جدوجہد 1970ء کے انتخابات

قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانی نے1970 ءمیں مفتی اعظم پاکستان سید ابوالبرکات محمد احمد قادری کے ساتھ مل کر جے یو پی کے تمام دھڑوں کو اکھٹا کیا اور اس کے صدرشیخ الاسلام والمسلمین خواجہ قمرالدین سیالوی ،نائب صدر اول علامہ شاہ احمد نورانی اور ناظم اعلیٰ علامہ محمود احمد رضوری چنے گئے۔جمعیت نے 1970 ءکے پہلے عام انتخابات میں پاکستان قومی اسمبلی کی7 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ان میں تین ارکان حکومت میں شامل ہوگئے اور باقی چار ارکان حزب اختلاف میں رہے1974 ءمیں جمعیت کے صدر مولانا شاہ احمد نورانی مقرر ہوئے آپ اس وقت قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور قائد حزب اختلاف بھی تھے مولانا نورانی کی قیادت میں جمعیت کی کامیابی یہ تھی کہ اس نے صرف چار ممبران اسمبلی کی مدد سے دوتہائی کی اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم کو آئین میں اسلامی دفعات کی شمولیت پر نہ صرف رضا مند کیابلکہ اسمبلی کے فلور پر اسلامی دفعات کوآئینی تحفظ دلانے اور ،تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے مسلمان ہونے کی شرط،مسلمان کی متفقہ تعریف،صدر اور وزیر اعظم ،گورنر ز،چیف جسٹس،اراکان سینیٹ،اور قومی وصوبائی اسمبلی کے حلف ناموں کی منظوری اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ایک وقت ایسا آیا اس جماعت کے دوحصے ہوگئے جمعیت علماء پاکستان (نورانی) اور جمعیت علماء پاکستان( نیازی)لیکن یہ اختلاف زیادہ عرصہ نہ رہا اور علامہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیرنے محمود آباد (قصور)میں اپنے جدامجدشاہ رکن الدین الوری کے عرس کے موقعہ پر ان دونوں قائدین کو جمع کیااوران کے سامنے اتحاد کافارمولہ پیش کیاجس پر دونوں قائدین نے اتفاق کیا اس طرح صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیرکی کوششوں سے یہ دونوں جمعتیں پھرسے ایک ہو گئیں اور اس کے چند دنوں بعد جے یو پی کی شوریٰ و عاملہ کا اجلاس ہواجسکے اندر دونوں قائدین کی موجودگی میں اس اتحاد کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔مولانا عبدالستار خان نیازی جمعیت کے صدر اور علامہ شاہ احمد نورانی سپریم کونسل کے چیئرمین مقرر ہوئے مولانا عبدالستار خان نیازی کے انتقال کے بعد جمعیت کی صدارت کے منصب پر پھر علامہ شاہ احمد نورانی فائز ہوگئے جواپنے وصال 11 دسمبر2003ء تک جمعیت کے صدر رہے آپ کے وصال کے بعد مردحق پروفیسر سید شاہ فرید الحق کو جمعیت کی شوریٰ نے صدر منتخب کیاطویل علالت کے باعث آپ کی جگہ علامہ شاہ محمد انس نورانی جمعیت کے صدرمنتخب ہوئے مگر کچھ عرصہ کے بعدوہ مستعفیٰ ہوگئے ،اس کے بعد 2007 ءمیں جمعیت علماء پاکستان کی مرکزی شوریٰ و عاملہ نے بالاتفاق علامہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کوجمعیت علماء پاکستان کا صدر منتخب کیا۔اس کے بعد آپ کی کارکردگی اور صلاحیتوں کے پیش نظر2009 ءمیں دوسرے ٹرم کے جماعتی انتخابات اور2011ء میں تیسرے ٹرم کے،2014 ءمیں چوتھے ٹرم کے اور 2016ء میں پانچوں ٹرم کے انٹرا پارٹی الیکشن میں جمعیت علماء پاکستان کی شوریٰ و عاملہ نے بالا تفاق آپ ہی کو صدارت کے منصب کیلئے منتخب کیا۔
متحدہ مجلس عمل:
قائدملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی کی کوششوں سے مذہبی جماعتوں کا ایک اتحاد متحدہ مجلس عمل کے نام سے 2002ء کو قائم ہوا۔جس نے 2002ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے اندر 53 سیٹیں حاصل کی تھیں اور11.3 فیصد ووٹ سے کامیابی حاصل کی۔صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اسی پلٹ فارم سے حیدرآبادمیں ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنونئر آفتاب شیخ کو شکست دے کرقومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔قائد اہلسنت کی وفات کے بعدمتحدہ مجلس عمل (MMA) کے تمام پارلیمانی اجلاسوں ،ریلیوں ،جلسے اور جلوسوں میں صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے ہی جے یو پی کی نمائندگی کی۔