انجمن طلباء اسلامATI
20شوال1387ھ بمطابق 20جنوری1968ء کو جامعہ کراچی کے طالب علم رہنما جمیل احمد نعیمی نے فروغ عشق رسول ﷺ کی تحریک کا آغازانجمن طلباء اسلام اے ٹی آئی کے نام سے کیااور اس قافلہ عشق و مستی کو شاہراہ منزل پر ڈالنے کیلئے عبدالرزاق،محمد حسین لوائی،یونس ہارون، حنیف طیب محمد یعقوب قادری،عبدالستار اور عبدالغنی جیسے نوجوانوں نے سر توڑ کوششیں کیں حاجی محمد حنیف طیب انجمن طلباء اسلام کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔
محبت و یقین کی قوت کے سہارے طلبہ کے قلوب میں عشق رسالت ﷺ کی شمع فروزاں کرنے اور ان میں مثبت تعمیری جذبوں کو پروان چڑھانے کیلئے کوشاں قافلہ مصطفوی میں روز بروزاضافہ ہوتا رہا کراچی سے کشمیرتک ہزاروں طلبہ گنبدخضراء کی محبت میں یک زباں پکار اٹھے۔ہمارا مقصد حیات ذکر شان مصطفی ﷺ، ہماری منزل مراد آستان مصطفی ﷺ،ہمارا ذوق گفتگو بیان مصطفی ﷺ،زباں پہ دردوپاک لب پہ سلام ہے، غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں۔غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے،جو ہو نہ عشق مصطفی تو زندگی فضول ہے،سیدی مرشدی یانبی یانبی
1969ء میں انجمن کے پہلے ترجمان”پیغام“ کی اشاعت کا آغازہوا 28اگست 1970ء کوانجمن طلباء اسلام کے مرکزی دفتر کا افتتاح عالم اسلام کی عظیم شخصیت مولانا فضل الرحمن مدنی نے اپنے دست مبار ک سے کیا۔
انجمن طلباء اسلام نے طلبہ میں صحیح اسلامی روح بیدار کرنے کیلئے عشق رسالت کی شمع فروزاں کرنے کو اپنا مقصد سفر قرار دیااور محبت رسول ﷺ کو مینارہ نور انقلاب نظام مصطفی ﷺ کو اپنا عزم اور عالمگیر غلبہ اسلام کو اپنی منزل قرار دیا۔
حقیقی روحانی انقلاب کی شاہراہ پر رواں دواں انجمن طلباء اسلام نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے جس راہ اعتدال کا انتخاب کیا اس میں عشق رسالت ﷺ کا فروغ،نظام مصطفیﷺ کے نفاذ کا عزم،مقام مصطفی ﷺکا تحفظ،صحابہ کرام و اہلیبیت اطہار کی عظمت،اولیاء کرام صوفیاء عظام اور علماء حق اہلسنت سے عقیدت و محبت کا جذبہ جیسے نظریات انجمن طلباء اسلام کے شریک سفر ہیں یہی نہیں بلکہ نظام تعلیم کی بہتری،طلبہ مسائل کے حل،تعلیمی امن کے قیام،درسگاہوں کے تقدس اساتذہ کے وقار کی بحالی علاقائی جماعتی تعصبات کے خاتمے،ظلم و استحصال سے پاک معاشرے کے قیام اور اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ کیلئے جدوجہد ان کا نصب العین ہے۔
انجمن طلباء اسلام نے اپنی تمام تر تنظیمی سرگرمیوں میں طلبہ بہبود سے کبھی چشم پوشی نہیں کی،غریب نادار طلبہ کی تعلیمی مشکلات حل کرنے کیلئے مختلف شہروں میں شعبہ بہبود طلبہ قائم ہیں جن کے تحت غریب نادار طلباء کی امداد نصابی کتب فیسوں کی ادائیگی کے ذریعے کی جاتی ہے اس شعبے کے تحت نوٹس کی طباعت مختلف علاقوں میں لائبریریوں کے قیام،کوچنگ کلاسز،کمپوٹر و ٹائپنگ سینٹر اور سائنس کے پریکٹیکلز سینٹرز بھی قائم کئے گئے قربانیوں اور شہادتوں کے اس سفر میں اے ٹی آئی کے مصطفوی سپاہی کسی سے پیچھے نہیں رہے کشمیر کے محاز پر محمد نعیم قریشی،ظفر جاوید،شفقت جرال،مظفر حسین اعوان،سید نثار حسین بخاری اور خواجہ بابر علی نے جام شہادت نوش کیا۔جہاد افغانستان میں انجمن نے ہر ممکن امداد فراہم کی اور خوشاب کے جواں سال کارکن محمد یونس نے شہادت کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا اس قافلہ مصطفوی کے شہدا ء افتخار احمد،ظفر اقبال،حضور بخش،انوار الحق کے علاوہ شیخوپورہ میں خالد محمودرحیم یار خان میں افتخارعظمت صحابہ کی خاطر شہید ہوئے علی شیر اور بابر حسین علم دوستی اور کالج دو تحریک میں شہید کئے گئے،حافظ محمد افضل کوگوجرانوالہ میں میلاد شریف کے جلسے میں تلاوت قرآن مجید کرتے ہوئے شہید کیا گیا،رانا شوکت محمود نے دو طلبہ کے درمیان بیچ بچاؤ کراتے ہوئے شہید تعلیمی امن کا اعزاز حاصل کیاحافظ تقی نشترپارک کراچی میں 12ربیع الاول کی شام نماز مغرب ادا کرتے ہوئے شہیدہوئے۔شہادتوں کے متلاشی آج بھی کفر کی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
اپنے قیام سے اب تک انجمن طلباء اسلام نے ملک میں چلنے والی ہر تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔پاکستان اور عالم اسلام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے اور ہر قدم کو روکنے کیلئے ہمہ وقت تیار مصطفوی سپاہیوں کا یہ نعرہ عام ہے۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے انجمن طلباء اسلام نے عالم اسلام کے ساتھ ہمیشہ اپنا رستہ قائم رکھااور اس کی واضح مثال جنگ خلیج کے حالات ہوں یا سلیمان رشدی کی کفریات،الجزائر و افغانستان کا مسئلہ ہو یا بوسینا،چیچیناپر مظالم کا معاملہ بابری مسجد کا سانحہ ہو یا فلسطین و کشمیر کا المیہ انجمن طلباء اسلام نے ہر ممکنہ فورم پرعالم اسلام کے مسائل اور مظلوم مسلمانوں کے حقوق کی بات کی ہے انجمن نے ان سلگتے مسائل پر نہ صرف زبانی و تحریری طور پر عالمی دنیا کے منافقانہ اور جانبدارانہ کردار کی مذمت کی بلکہ اپنے جواں جذبوں کا اظہار عملی طور پر بھی کیاجس کے نتیجے میں کارکنا ن انجمن نے شہادتوں کے جام پیئے اور قید بند کی صعبتیں برداشت کیں۔
1974ء میں تحریک ختم نبوت شروع تو انجمن طلباء اسلام نے علمائے حق کے شانہ بشانہ پورے جوش وجذبہ سے اس تحریک میں حصہ لیا اور تحریک ختم نبوت ﷺ کو جلابخشی مرکزی صدر انجمن اقبال احمد اظہری پابند سلاسل رہے بالآ خرکارکن انجمن کی قربانیاں رنگ آئیں اور امام انقلاب علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی قرارداد پر7ستمبر1974ء کو قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا اس تحریک کے دوران انجمن طلباء اسلام نے ملک بھر میں 1375جلسے منعقد کئے مرکزی صدر اقبال احمد اظہری کے ہمراہ شوکت علی حیدری،محمد اظہرنعیمی، محمد ارشاد ناز،عبدالرحمن مجاہد،محمد ارشد جاوید،امجد علی چشتی،سید محفوط شاہ مشہدی،عثمان خان نوری،راؤ ارتضی اشرفی،محمد احمد منتظر،رضوان شکیل،تبسیم قادری،عطاء اللہ،رانا لیاقت علی خان،غلام ربانی،اور اقبال قریشی وغیرہ نے طوفانی دوروں کے ذریعے عوام کو قادیانیوں کے مکروہ نظریات سے آگاہ کیا1976ء میں انجمن طلباء اسلام نے اسلامی نظام تعلیم منایا1977ء انجمن طلباء اسلام کا وہ سنہری دور ہے جسے کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا حکومت کے خلاف قومی اتحاد نے تحریک شروع کی اور علامہ شاہ احمد نورانی نے اسے تحریک نظام مصطفی ﷺکا نام دیاتواس تحریک نظام مصطفی ﷺ کی آبیاری کارکنان نے اپنے مقدس لہو سے کی ملتان کے ناظم افتخار احمد شہید کے خون سے بورے والا میں شہادت کی پہلی مشعل روشن ہوئی پھر حضور بخش،ظفر اقبال انوار الحق شہیدہوئے شہادتوں کا یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری وساری ہے طلباء قومی اتحاد بنا تو اس کی قیادت بھی انجمن طلباء اسلام کے مرکزی صدر امجد علی چشتی کو سونپی گئی 1978ء میں انجمن کی قیادت جواں سال عثمان خان نوری کو ملی تو انجمن ایک تناور درخت کا روپ دھار چکی تھی طلباء کی سب سے بڑی قوت فروغ عشق رسالت ﷺ کے ساتھ انقلاب نظام مصطفی ﷺ کیلئے کوشاں تھی جب ڈکٹیٹر حکمرانوں نے اسلام کا راستہ روکنے کی ناکام کوششیں کیں تو جماعت اہلسنت نے پاکستان کو سنی اسٹیٹ بنانے کیلئے ملتان میں سنی کانفرنس کا انعقاد کیاجس میں ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کر کے اس فیصلے کو منظور کیا انجمن طلباء اسلام نے اس کے انتظامات کو احسن طریقے سے نبھایا1979ء میں رائے ونڈ میں نعرہ رسالت بلند کرنے پر فروغ عشق رسالت کے پروانے کو شہید کردیا گیاامام شاہ احمد نورانی نے جمعیت علماء پاکستان کے زیر اہتمام میلاد مصطفی کانفرنس منعقد کر کے مارشل لاء کے ایوانوں میں لرزہ طاری کردیا اس موقع پر انجمن نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا 1983ء میں قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بازیابی کیلئے نئے عزم سے تحریک شروع کی کارکنان انجمن کو پابند سلاسل کردیا گیا طلباء یونین انتخابات ہوئے تو انجمن طلباء اسلام نے 105کالجوں میں کامیابی حاصل کی تو ڈکٹیٹر حکمرانوں نے مارشل لا ء کے ضابطہ نمبر1371کے تحت طلباء یونین اور تنظیموں پر 9فروری1984ء کو پابند ی عائد کردی مارشل لاء کے خلاف طلباء تاریخ کا طویل ترین احتجاج ہواجس کی پاداش میں مختار الحق،محمد فیاض جویہ،عاطف علی نیازی،انوار الحق شاکر حمید خان کو تعلیمی اداروں سے فارغ کر کے گرفتار کرلیا گیااس دوران ایک سرکاری وزیر کے اشارے پر انجمن طلباء اسلام کا نام بدل کر غلبہ اسلام رکھنے کی سازش ہوئی تو اسے ناکام بنادیا گیا1985ء میں انجمن طلباء اسلام نے پہلا یوم حقوق طلباء منایا اور ملک گیر سطح پر احتجاجی مظاہرے منعقد کر کے حکومت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔
1987 میں طلباء حقوق کی بحالی کے سلسلے میں لاہور میں نکالے جانے والے جلوس میں اس وقت کے جنرل سیکریٹری پنجاب مختار الحق صدیقی،کو متعدد کارکنان کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیااسی دوران انجمن کی حکومت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ابن وقتوں نے دنیاوی مفادات کے چکر میں آکر اپنے ہی اکابر بزرگوں کے خلاف منظم طریقے سےصف بندی کر کے محاذآرائی شروع کردی اس طرح اے ٹی آئی کے درددل نوجوانوں نے انجمن کا قبلہ درست کھنےکیلئےقائد طلباء حمایت علی چودھری کو مرکزی صدر اور سالار قافلہ عبدالروف مصطفائی مرزا کو سیکریٹری جنرل منتخب کیا۔
9مارچ 1989ء کو طلباء تنظیموں پر سے پابندی ختم ہونے کے بعد طلبہ یونین الیکشن ہوئے تو اے ٹی آئی نے پنجاب کے155سے زائد کالجوں میں شاندار کامیابی حاصل کی اس کے بعد سے اب تک تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین الیکشن نہیں کرائے گئے دسمبر1991ء میں جموں و کشمیر انجمن طلباء اسلام نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر متعارف کرانے اور مجاہدین کشمیر سے اظہار یکجہتی کیلئے کشمیر کی حدبندی لائن کراس کرنے کا اعلان کردیا11فروری1992ء کوقائد طلبہ عبدالروف مصطفائی اور جے کے ایل ایف کے سربراہ امان اللہ کی قیادت میں کارکنان انجمن نے حدبندی لائن کراس کرنے کیلئے مظفرآبادچکوٹھی پہنچے تو انہیں گرفتار کرلیا گیااس جدوجہد سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا موقع ملااور دنیا بھر میں اس مسئلہ کی باز گشت سنائی دی جانے لگی انجمن طلباء اسلام کی50سالہ جدوجہد تاریخ کا عظیم باب ہے انجمن نے اپنے قیام کے بعد سے ہر ملی تحریک میں بنیادی کردار ادا کیا ہر موقع پراسلام پسند طلبہ کو قیادت فراہم کی کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جہاں انجمن طلباء اسلام کی فکر رکھنے والے کارکنان نے کارنامے انجام نہ دئیے ہوں جس کی واضح مثال تبلیغ اہلسنت کی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کے امیر مولانا محمد الیاس قادری جنہوں نے انجمن کی فکری ترتیب سے متاثر ہو کر گھر گھر سنتوں کو پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔پارلیمنٹ میں نظام مصطفی کی صدائیں بھی انجمن کی فکر رکھنے والے عثمان خان نوری،حاجی حنیف طیب،حافظ تقی جسے داعیان انقلاب نظام مصطفی ﷺ نے بلند کی۔سماجی بہبود اور دکھی انسانیت کی خدمت میں انجمن نے بے شمار نام چھوڑے ہیں جن میں محمد یعقوب اور احمد عبدالشکوراور المصطفی ویلفیئر سوسائٹی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاشعبہ تعلیم میں کارنامے انجمن دینے والے انجمن کے داعیان کی تعداد ہزاروں میں ہے ان گوہر نایاب میں سے ایک اقبال کا فلسفہ بیان کرنے والے پروفیسر طفیل سالک کو کسی صورت نہیں بھلایا جاسکتامیدان کرکٹ میں جاوید میاں داد،وقار یونس بھی انجمن کے نظریاتی کارکن رہے ان قابل ذکر شخصیات کوانجمن کی فکری تربیت نے نکھارا اور کندن بنایا نوجوان نسل میں اولیائے کرام کی تعلیمات کوعام کرنے فکر امام احمد رضاخان بریلوی اور مطالعہ اقبال کو فروغ دینے میں انجمن کے کردار کو کوئی بھی غیر جانبدارمورخ نظر انداز نہیں کرسکتاانجمن کے پاکیزہ ماحول کے نتیجے میں لاکھوں طلبہ پابند صوم و صلوٰۃ ہوئے اور ان کی زندگیوں کے رخ بدل گئے ہزاروں چہروں پر سنت رسول کا نور چمکا اس سب کے باوجود انجمن کو ہر دور کے حکمرانوں نے دبانے اور کچلنے کی کوشش کی انجمن وہ تحریک ہے جسے دیکھ کر ہمیشہ اقتدار کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور اس کے جیالے کارکنان سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں لیکن تمام تر مخالفتوں کے باوجودانجمن کے کارکنان آج بھی قائد ملت اسلامیہ امام شاہ احمد نورانی کے جانشین ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کے شانہ بشانہ نظام مصطفی ﷺ کے انقلاب کیلئے مصروف ہیں۔
انجمن طلباء اسلام گھر سے مکتب مکتب سے معاشرے اور معاشرے سے نظام حکومت تک ایک تحریک ہے فروغ عشق مصطفی کی ایک جدوجہد ہے انقلاب نظام مصطفی کی اور ایک عزم ہے تحفظ مقام مصطفی کی آئیے اس تحریک کا
ہر اول دستہ بن کر نظام مصطفےﷺ کا سچا سپاہی بنیں۔